اللہ تعالیٰ نے کرۂ ارض کی اس وسیع وعریض، خوبصورت اور ہر طرح کی نعمت سے مالا مال ہستی کو انسانیت کے لئے بنایا ہے، اس کائنات اور اس سے متعلق تمام چیز میں ہمہ وقت انسانیت کی خدمت میں مشغول ہیں، سورج اس کے لئے ہر دن روشنی کا انتظام کرتا ہے، زمین اس کے قدموں میں بچھی ہوئی ہے اور اس کی غذائی ضرورت کے لئے بار بار اپنے سینے کا چاک ہونا اور پامال کیا جانا قبول کرتی ہے۔ درختوں کا کام یہ ہے کہ مزے دار پھل اور عطر بار پھول مہیا کرنے کے علاوہ آلودہ ہواؤں کو اس کے لئے صاف کریں، تا کہ اسے آکسیجن کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے، بادل سمندر سے کھارے پانی کا ڈول بھربھر کر اسے صاف اور شیریں بناتا ہے اور کھیتوں اور آبادیوں تک باران رحمت پہنچاتا ہے، سمندر کی متلاطم موجیں نہ جانے کتنی ساری آلودگیوں کو ختم کرتی ہیں اور ان کی زہرا کی سے انسان کو خوظ رکھتی ہیں، ہوا میں ہر وقت اس کے مفاد کے لئے دوڑ بھاگ میں لگی ہوئی ہے اور دنیا میں جتنے جاندار ہیں، وہ سب کسی نہ کسی پہلو سے اس کی خدمت میں مصروف ہیں، یہاں تک کہ جن جانوروں کی درندگی انسان کولرزاں وترساں رکھتی ہیں، ان کا وجود بھی کسی نہ کسی پہلو سے انسان کے لئے فائدہ مند نفع بخش ہی ہے۔
غرض کہ پوری کائنات انسان کی خدمت اور اس کے لئے عیش وراحت کی فراہمی میں مشغول ہے۔ اسی لئے قرآن کا تصور یہ ہے کہ کائنات انسان کا معبودنہیں ہے ، بلکہ اس کی خادم ہے : ( الجاثية : ۳ ) لیکن دو چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے لئے بے حد ضروری ہیں عیش وعشرت کے جتنے بھی وسائل حاصل ہو جائیں، اگر یہ دو چیزیں اسے میسر نہ ہوں تو اس کی زندگی بے سکون اور اس کی آرزوئیں ناتمام رہتی ہیں۔
امن اور ترقی اسی لئے اللہ تعالی نے اہل مکہ پر اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تمہیں اس لئے بھی رب کعبہ کی عبادت کرنی چاہئے کہ اس نے عرب کے صحرا میں غذائی ضرورت اور کسی حکومت اور لا اینڈ آرڈر کا انتظام نہ ہونے کے باوجود ان کا انتظام فرمایا ہے۔ خوف و دہشت سے حفاظت کا تعلق امن سے اور غذائی اشیاء کی فراہمی کا تعلق ترقی سے ہے، زندگی کے لئے مطلوب ساری سہولتیں اللہ تعالی کا خصوصی عطیہ ہیں مگر یہ دونوں نعمتیں وہ ہیں، جن کو اللہ تعالی نے انسان کے ارادہ اور کوششوں سے تعلق رکھا ہے اور انسان کو اسی بصیرت اور صلاحیت عطا کی گئی ہے کہ اگر اس کی کوشش صحیح سمت میں ہو تو ان کو حاصل کر سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے قائم ہونے کا تعلق قیام عدل سے ہے، عدل کی تفصیل یہ ہے کہ زندگی گزارنے کے تین طریقے ہو سکتے ہیں ، جن کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے۔ عدل، احسان اورظلم، عدل کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کو اس کا پورا پورا دے دیا جائے اور خود اپنے حق سے زیادہ ن لیا جائے ، احسان یہ ہے کہ دوسرے کو اس کا حق اس کے حصہ سے بڑھ کر دیا جائے اور خود اپنے حصہ سے کم کیا جائے یا اپنا حصہ نہیں لیا جائے قرآن مجید نے ان ہی دونوں طریقہ کار کو درست اور قابل قبول قرار دیا ہے لیکن آئیڈ یل طریقہ یہ ہے کہ انسان ’احسان‘ سے کام لے، جس کو بندے کے حقوق کے معاملہ میں ایثار کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں جگہ جگہ احسان کی تعریف کی گئی ہے، فرمایا گیا : اللہ احسان کرنے والے لوگوں کو پسند فرماتے ہیں۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ جولوگ احسان کا رویہ اختیارکریں۔ اللہ تعالی ان کو بہتر بدلہ اور انعام سے محروم نہیں کریں گے۔ اس کے بالمقابل ظلم اسلام کی نظر میں بدترین گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوسکتا، ناکامی و نامرادی ہی اس کا حصہ ہے۔ ظالموں کا انجام ہلاکت و بربادی ہے اور اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں فرماتے۔ قرآن پاک میں دو سو سے زائد مقامات پر تلف جہتوں سے ظلم کی اور ظالموں کی مذمت فرمائی گئی ہے اور بہت زیادہ مقامات پر عدل کا اور احسان کا حکم دیا گیا ہے یا اس کی تحسین کی گئی ہے۔ جب معاشرہ میں عدل قائم ہوگا ، لوگوں میں احسان کا جذبہ پیدا ہوگا اور ظلم کرنے والے ہاتھ تھام لئے جائیں گے تو یقینا وہ معاشرہ ان کی دولت سے بہرہ ور ہوگا۔
Twitter | @IhsanMarwat_786
Shares: