کچھ دن پہلے امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے کہا ’’کہ افغانستان افغانیوں کا ملک ہے اور اس کا دفاع کرنا افغانیوں کی ذمہ داری ہے‘‘۔ آخر کار بیس کے بعد امریکہ کو خیال آیا کہ افغانستان کو ڈیفینڈ کرنا افغان حکومت اورافغان عوام کی ذمہ داری ہے اور دوسری بات جو کہ بالکل گھٹیا تھی وہ یہ ’’کہ پاک افغان سرحد پر ایسے ٹھکانے اور پناہ گاہیں ہیں جہاں سے افغانستان کا امن خراب ہو رہا ہے اور پاکستان کو اس کا خیال رکھنا چاہیے اور اسے کنٹرول کرنا چاہیے‘‘۔ یہ بات بہت مضحکہ خیز اور بے معنی ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب یورپی یونین کے اعلیٰ ترین عہدیدار نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے ’’کہ اندازے کے مطابق طالبان نے افغانستان میں 65 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا ہے‘‘ اور اب تک طالبان بارہ صوبے لے چکے ہیں اور بہت جلد ہی انیس صوبوں پر قابض ہو جائیں گے۔ اب سے تقریبا تین ماہ پہلے سنٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے امریکی اخبارات کو ایک خبر لیک کی تھی ’’کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک کابل کھڑا رہ سکتا ہے‘‘۔ ان تمام صورتحال میں امریکی وزیر دفاع کا تبصرہ انتہائی بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔
آج کل طالبان نے ایک عجیب حکمت عملی اختیار کی ہے وہ چار یا پانچ جنگجوؤں ذریعے ایک شہر یا قصبے یا دارالحکومت کو پیغام بھیجتے ہیں اور وہاں کے لوگوں اور لیڈرشپ کو مطلع کر دیتے ہیں کہ ہم یہاں پہ آ چکے ہیں ، آپ ہماری پناہ میں آجائے اور ہتھیار ڈال دیں۔ اور یہ فارمولا کافی حد تک کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ اور اگر انہوں نے ابھی تک بڑے شہروں یا بڑے صوبوں پر قبضہ نہیں کیا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ، کہ زیادہ خون نہ بہایا جائے اور سرحدوں کو پہلے کنٹرول کیا جائے اور اب تک ایران ، وسطی ایشیائی ممالک اور پاکستان کے ساتھ منسلک سرحدیں ، اس کے روٹس ، اور اس کی شاہراہیں طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر *’’ سینکشن پاکستان ‘‘* کے نام سے ایک کمپین چلائی جا رہی ہے۔ اس کمپین کا آغاز 30 جون کو کیا گیا تھا۔ ایک پاکستانی سوشل میڈیا تجزیہ کار ، عمر، جو "ویو لائٹکس” کے نام سے ایک ویب سائٹ چلاتا ہے ، نے اس کمپین کا مکمل تجزیہ کیا ہے کہ یہ مہم کیسے شروع کی گئی اور کیسے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے آگے بڑھایا گیا۔ اس کمپین میں 9 اگست تک تقریبا دو لاکھ ٹویٹس اور ریٹویٹس کیے گئے تھے ، جن میں سے بیشتر جعلی اکاؤنٹس تھے ، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس پوری کپمین کا تعلق افغان حکومت اور ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے ہے۔ اس کمپین کے ذریعے ایک پورا ماحول بنایا جا رہا ہے اور پاکستان کو افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ بحیثیت پاکستانی ہمیں اس کمپین کو کاونٹر کرنا اور دلائل کا سہارہ لے کر بھرپور جواب دینا چائیے۔
*اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈرامہ اچانک کیوں رچایا جا رہا ہے؟* اس کا ایک پس منظر یہ ہے کہ نیٹو ممالک کے آپس میں ڈیبیٹس ہوئی ہیں ، کہ بیس سال پہلے ہم امریکہ کے ساتھ افغانستان گئے اور وہاں سے طالبان کی حکومت کو ہٹا دیا۔ اب بیس سال بعد امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کر کے افغانستان کو دوبارہ طالبان کے حوالے کر دیا ہے اور یہ نہ صرف امریکہ کی بلکہ نیٹو ممالک اور ان کی افواج کی بھی ناکامی ہے۔ اور اب ان کی قیادت سمجھتی ہے کہ یہ نیٹو کی بطور اتحاد بڑی ناکامی ہے۔ جس سے یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ نیٹو کی فعالیت اور افادیت کیا رہ جاتی تھی۔ اور اب سب ایک دوسرے پر ملبہ پھینک رہے ہیں۔ اور یہاں تک کہ ڈیلی میل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے برطانوی وزیر دفاع نے امریکہ پر الزام عائد کیا ’’کہ امریکہ کا فیصلہ بالکل غلط ہے اور امریکہ کو ایسی واپسی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے نیٹو کے باقی ممالک کو ہمارے ساتھ شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی کہ برٹش افغانستان میں بیٹھنے کے لیے تیار ہے لیکن نیٹو کے دیگر ممالک میں سے کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہے‘‘۔ لیکن حقیقت کچھ مختلف ہے کیونکہ برطانوی معیشت کے حالات بالکل ایسے نہیں ہیں کہ امریکہ کے بغیر برٹش افغانستان میں بیٹھ کر وہاں ذمہ داری لے سکیں۔ اس انٹرویو میں برطانیہ کے سیکریٹری دفاع نے یہ بھی کہا ’’کہ ہمارے وسائل اس وقت اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن ہم دس یا پندرہ سال بعد واپس آ سکتے ہیں۔ اگر یہاں حالات خراب ہوئے تو ہم ایک بار پھر افغانستان کا دفاع کریں گے‘‘۔ لیکن اگر برطانیہ کی اپنی سیاسی صورت حال پر غور کیا جائے، تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ، برطانیہ کے اندر انگش ، سکاٹش ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے درمیان برطانوی معیشت ، سیاسی مسائل ، انگریزی قانون اور برطانوی آئین پر تنازعہ پیدا ہوا ہے جس سے برٹش کے اپنے وجود کو کافی خطرہ ہے۔
اگر ایک طرف یہ رونا پھیٹنا ہے ہے تو دوسری طرف چین اور روس خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اس صورتحال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس لیے مغرب میں پچھتاوے کا ایک احساس ہے اور اس احساس ندامت میں مغرب کو قربانی کا ایک بکرا چاہیے ، اس لیے وہ پاکستان کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں کہ پاکستان کی وجہ سے ہم افغانستان میں ناکام ہوگئے۔ بیس سال تک دنیا کا سب سے بڑا فوجی اتحاد افغانستان میں بیٹھا رہا اور کوئی حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ اس تمام صورتحال کے باوجود صدر بائیڈن اس بات پر قائم ہیں کہ 31 اگست تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ امریکہ نے کچھ فضائی حملے بھی کیے ہیں۔ لیکن سوچنے کے بات کہ حملے کیسے کی گئیں؟ بحرحال یہ ایک کاسمٹک نیچر کے حملے ہیں اور اگر بیس برس میں اس قسم کی بمباری سے اور اس قسم کی حکمت عملی سے بہت فرق نہیں پڑا تو اب کونسا فرق پڑ جانا ہے۔ *یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں کوئی میدان نہیں ہارا لیکن 20 سالہ جنگ ہار گئی۔* اس کی وجہ کیا ہے؟
دوسری طرف طالبان کے پاس امریکی اور نیٹو افواج کی بھاری مشینری کو چیلنج کرنے کے لیے طاقتور فوج اور بھاری فوجی مشینری نہیں تھی۔ مختصر یہ کہ طالبان کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ مستقل مزاج تھے اور انہوں نے کسی بھی صورت میں ہتھیارنہیں ڈالنا تھا اور امریکی غلامی اور امریکہ کے لائے ہوئے نظام کو قبول نہیں کرنا تھا۔ دوسری طرف اپنی کامیابی کے لیے امریکہ کو ایک سیاسی نظام قائم کرنا تھا جس میں طالبان کو جگہ دی جا سکے۔ اور اس نظام کو لانے کے لیے امریکہ کے پاس 2002 کے بعد درجنوں مواقع تھے جب امریکہ نے طالبان کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کر لیا ، لیکن امریکہ نے ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ پاکستانی حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور دفتر خارجہ نے بارہا امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کہا کہ آپ طالبان کے ساتھ مضبوط پوزیشن کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں تا کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بن سکے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے *’’کہ وزیراعظم عمران خان نے ستمبر 2020 میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں عمران خان نے لکھا تھا کہ افغانستان میں استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن امریکہ کو جلد بازی میں انخلا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔*
لیکن امریکہ کی شاید ایک مختلف حکمت عملی تھی تاکہ وہاں کوئی مستحکم حکومت قائم نہ ہو سکے اور وہ چاہتے تھے کہ افغانستان میں امن خراب ہو تاکہ وہ اسے ہمیشہ اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں۔ حقیقت میں امریکہ نے افغانستان میں سیاسی حل تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اس کے برعکس پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ طالبان کے ساتھ ہمارے مذاکرات کروائیں۔ اور وہ مذاکرات دوحہ میں کئی مہینوں تک جاری رہی اور اس کے نتیجے میں امریکہ نے اشرف غنی حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدہ کرنے کے بجائے دو الگ الگ معاہدے کیے ، ایک طالبان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بارے میں اور دوسرا اشرف غنی کے ساتھ اس کی حمایت جاری رکھنے کے لیے۔
اس کے علاوہ ایک بڑا *سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں کیوں تھا؟* ظاہر ہے کہ امریکہ کا عوامی بیانیہ یہ رہا ہے کہ ہم یہاں نیشن بلڈنگ کے لیے آئے ہیں اور یہاں سے ہم پر حملہ کیا گیا تھا۔ لہذا ہمیں اسے نیوٹرلائز کرنا ہے تاکہ یہاں سے امریکہ پر مزید دہشت گردانہ حملے نہ ہو۔ ماہرین کے مطابق امریکہ کے اندر فیصلہ سازی کے کئی مراکز ہیں جن میں پینٹاگون ، وائٹ ہاؤس ، این ایس اے ، اسٹیٹ ڈیمپارٹمنٹ اور سی آئی اے شامل ہیں۔ بہرحال سی آئی اے اور پینٹاگون افغانستان میں رہنا چاہتے تھے اورپوری خطے کو یہاں کنٹرول کرنا چاہتے تھے تاکہ چین کی وسطی ایشیا اور روس تک ممکنہ اقتصادی اور اسٹریٹجک توسیع کو روکا جاسکے ، اور پاکستان اور ایران پر بھی نظر رکھی جائے۔ لیکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس پر واضح رائے تھی کہ ہمیں افغانستان سے نکل جانا چاہیے۔ اب یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اربوں ڈالر ضائع ہو رہے ہیں اور اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ جو سابق امریکی صدرٹرمپ نے بھی قبول کیا تھا اور بعد میں صدر بائیڈن نے بھی اینڈورس کیا۔
اس ساری صورتحال میں پاکستان کے لیے بظاہر کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف طالبان امریکہ ، پاکستان ، چین ، روس اور دیگر پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور طالبان نے یہ بھی باور کروایا ہے کہ پاکستان بشمول تمام ہمسائیہ ممالک کے لیے ہمارے طرف کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ ایسے میں طالبان کمانڈر نے حال ہی میں 15 منٹ کا ایک آڈیو ریکارڈ جاری کیا ہے۔ جس میں طالبان جنگجوؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سرکاری املاک اور سرکاری دفاتر کو نقصان نہ پہنچائیں اور ایسی شکایات عوام کی طرف سے نہیں آجانا چاہئیے۔ اور معلومات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ افغانستان سے آنے والے سوشل میڈیا پر وائرل تشدد کی زیادہ تر ویڈیوز ، خبریں اور افواہیں جعلی یا پرانی ہیں۔
طالبان اب بھی امریکہ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ امریکہ کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد ایک وفد کے ساتھ قطر پہنچے ہیں جہاں وہ طالبان سے ملاقات کررہے ہیں اور وہ طالبان پر ایک بار پھر زور دے رہے ہیں کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ سیاسی سیٹلمینٹ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو سیاسی حل کے لیے مجبور کرے۔ اس صورتحال میں بھارت طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور انہوں نے بھرپور کوشش بھی کی لیکن ابھی تک کوئی بامعنی مذاکرات نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ بھارت دونوں طرف سے کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ طالبان سے بات چیت کرنا چاہتا ہے ، تو دوسری طرف وہ کابل حکومت کو مدد کی یقین دہانی کروا رہا ہے۔
Written by: Zubair Hussain
PhD scholar, School of Medicine,
Seoul National University
South Korea
Email: 2021-25986@snu.ac.kr
Twitter: @zamushwani