امریکی غلام نو مور سے پریشان تحریر: زبیر احمد

0
34

14 اگست کو پاکستان اپنی آزادی کی 74ویں سالگرہ منائے گا۔ پاکستان برطانوی نوآبادیاتی ہندوستان سے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں لازوال قربانیوں کے بعد آزاد ہوا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں موجود ہندوؤں کی اکثریت مسلمانوں کے حقوق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، انگریز کے جانے کے بعد یہ ہندوستان کے 30فیصد مسلم آبادی کو اپنے زیر تسلط رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستان کو مسلمانوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ بننا تھا جہاں وہ اسلامی قوانین، ثقافت اور اخلاقی اقدار کے مطلب رہیں گے۔
یوم آزادی کے اظہار کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن میں عوام کے مفادات، بھلائی کا خیال رکھا جائے۔ آزادی کے وقت بھی مسلمان یہی چاہتے تھے کہ ملک کو اسلامی قوانین کے مطابق چلایا جائے اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں پہ آگے بڑھے گا۔
لیکن بدقسمتی سے اشرافیہ چاہتی ہے کہ پاکستان پہ صرف ان کا تسلط قائم رہے، اشرافیہ شدید احساس کمتری کا شکار ہے۔ یہ ہر طرح سے مغرب کی تقلید کرتے ہیں، زبان، لباس، آداب، خوراک، طرز زندگی غرضیکہ ہر طرح سے مغربی طرز زندگی اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، یہ ملک میں مادر پدر آزاد معاشرے کو قائم کرنے کے لئے مغرب طرز کی پالیسیاں بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عوام کے ساتھ اس سے بھی زیادہ حقارت سے پیش آتے ہیں جتنا انگریز نے اپنے دور حکومت میں کیا۔
اشرافیہ مغرب کی سرپرستی کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی، خواہ وہ زندگی کتنی بھی توہین آمیز اور ذلالت بھری کیوں نہ ہو۔ وزیراعظم عمران خان سے غیرملکی صحافی نے سوال کیا کہ کیا پاکستان امریکیوں کو افغانستان کے اندر آپریشن کرنے کے لیے فوجی اڈے فراہم کرے گا، جس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ "بلکل نہیں” بعدازاں انہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ ماضی میں پاکستان کا موقف اور امریکہ کی بولی لگانے کی پالیسیوں نے ملک کو شدید انسانی اور معاشی نقصان پہنچایا ہے۔
امریکی ایجنٹ فوری ان کے پاوں پر کھڑے ہوگئے اور عمران خان کے خلاف واویلا شروع کردیا۔ ان کی دلیل کا زور یہ تھا کہ امریکہ کی خوشامد جارہی رکھو اور اس سے دشمنی نہ کرو ورنہ شاید آسمان گر جائے گا۔ دوسروں نے الزام لگایا کہ افغانستان کے بارے میں عمران خان کوئی پالیسی نہیں رکھتے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ عمران خان امریکی مطالبہ من و عن قبول کرلے اور افغانستان میں جارحیت جاری رکھنے کے لئے پاکستان فوجی اڈے فراہم کرے۔ ایک کالم نگار تو اس حد تک اس خلاف ہوگئے کہ حکومتی تعلیمی پالیسی کا مذاق اڑاتے ہیں کہ بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی عربی اور قرآن کی تعلیم دینا ایک رجعت پسندانہ قدم ہے اور عربی سیکھنے اور ایک سے زیادہ زبانوں کی وجہ سے بچوں پہ ذہنی طور پہ پریشر آجائے گا اور سائنسی تعلیم میں پیچھے رہ جائیں گے۔ حالانکہ حقیقت میں دنیا میں اکثر ذہین ترین شخصیات ایک سے زائد زبانوں پہ عبور رکھتی تھیں۔ پاکستانی سیکولر اس لئے بھی پریشان ہیں کہ عمران خان امریکہ کے توہین آمیز مطالبات سے پاک ایک آزادانہ پالیسی اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس میں امریکی ڈومور کی گردان سے کنارہ کشی اختیار کی جاسکے۔ امریکی فوج کو افغانستان میں کسی منظم فوج نے نہیں بلکہ طالبان نے شکست دی جو کسی طور پہ بھی ہر طرح کے اسلحہ سے لیس منظم آرمی نہیں کہا جاسکتا بلکہ ان کے یقین محکم اور ایمانی طاقت نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا، یہی وہ چیز ہے جو پاکستانی سیکولرز کو خوفزدہ کرتی ہے، جیسا کہ جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے۔
افغانستان سپر پاورز کا قبرستان ہے آج سپرپاور کے طور پر امریکہ کا افسانہ ہندوکش کے پہاڑوں میں پلٹ دیا گیا ہے۔ یہ تو بہت پہلے سے ظاہر ہوچکا تھا کہ امریکہ طالبان کو فتح نہیں کرسکتا لیکن پے در پے امریکی حکومتیں فوجی صنعتی کمپلیکس کو خوش رکھنے کے لیے اپنے ہی لوگوں سے جھوٹ بولتی رہیں۔ پاکستانی سیکولرز کو علم ہونا چاہیے کہ ان کے گارڈ فادر افغانستان میں جنگ ہار چکے ہیں اب امریکہ واپس نہیں آرہا چاہے وہ واپسی کی کتنی ہی خواہش رکھتا ہو۔ اگرچہ امریکہ شرارتیں کرنے سے باز نہیں آئے گا کیونکہ اس سے سمجھ آنے سے پہلے بہت سی شکستوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو امریکہ کی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں اس کے بجائے اسے اپنے مسائل کو حل کرنے پہ توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کے فیصلہ سازوں کو سمجھ آجانا چاہیے کہ امریکہ کسی بھی عام پاکستانی کو قبول نہیں اور نہ امریکہ سے کسی بھلائی کی توقع رکھنی چاہئے۔ انکل سام کے ساتھ 74 سالہ تعلقات میں ہمیشہ اس نے اپنا مفاد ختم ہونے کے بعد پاکستان کو آنکھیں ہی دکھائی ہیں۔ سیکولرز کو امریکی شکست پہ اٹھنے والے مروڑ کو بھگتنے دیں، جبکہ پاکستان کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا امریکہ کے تسلط سے نکل کر آگے بڑھ رہی ہے۔

tweets @KharnalZ

Leave a reply