امریکہ کا دنیا کو دھوکہ، تحریر: نوید شیخ
جہاں افغانستان سے امریکی انخلاکے بعد طالبان کے امریکا سے پہلے باضابطہ مذاکرات دوحہ میں ہوئے ہیں ۔ تو افغان طالبان کیجانب سے داعش پر ۔۔۔ اور داعیش کی جانب سے افغان طالبان پر حملے جاری ہیں ۔ ۔ اس وقت افغانستان میں تین طرح کی پراکسیز اپنا زور دکھا رہی ہیں۔ ٹی ٹی پی ۔ بی ایل اے ۔ داعیش اس میں سرفہرست ہیں ۔ پہلے اگر امریکہ طالبان مذاکرات کی بات کی جائے تو طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کامطالبہ کیا ہے ۔ جو کہ بالکل جائز مطالبہ ہے ۔ پھر ان کی جانب سے افغانستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ مگر اس وقت امریکہ کی دلچسپی امریکی شہریوں کے افغانستان سے بحفاظت انخلا، اغوا شدہ امریکی شہریوں کی بازیابی اور افغانستان میں انسانی حقوق میں ہے۔
۔ آپ امریکی دونمبری چیک کریں کہ اسکو افغانستان میں انسانی حقوق کی بڑی فکر لاحق ہے لیکن دہائیوں سے فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ امریکہ کو کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے لاڈلوں بھارت اور اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مذمت کرے۔ پھر امریکہ کا یہ نقطہ نظر بھی عجیب ہے کہ جب امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتا تو پھر مذاکرات مذاکرات کا کھیل کیوں کھیل رہا ہے ۔ کھل کر سامنے آئے ۔ طالبان کو اپنا دشمن ڈیکلیئر کرے ۔ تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ افغانستان میں امن نہیں چاہتا خون خرابہ چاہتا ہے ۔ آخر کیوں امریکہ نے دنیا کو ایک نئی مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ کہ طالبان حکومت کو ابھی کوئی قبول نہ کرے ۔ یہ دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ خود دنیا میں امن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پھر ان کی ملی بھگت دیکھیں کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر طالبان حکومت کو امداد دینے کے معاملے پر بظاہرکسی ایک نکتے پر متفق دکھائی نہیں دئیے۔ یہ صرف ایک واردات ہے ۔ دھوکہ دینے کی کوشش ہے ۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ افغانی بھوکے مریں ۔ اور طالبان حکومت مستحکم نہ ہونے پائے ۔ پھر امریکہ طالبان مذکرات کے حوالے سے جرمن میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ بات چیت میں فریقین نے داعش کو کنٹرول کرنا موجودہ افغان حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہے ۔ اس حوالے سے سہیل شاہین نے مذاکرات سے قبل ہی بتا دیا تھا کہ افغانستان میں داعش خراسان کے مسلسل فعال ہونے کے بعد واشنگٹن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہو گا۔ اور مذاکرات صرف امریکا کی مرضی کے ایجنڈے پر نہیں برابری کی سطح پر ہوں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ صرف ایک فریق اپنی ہی مرضی مسلط کرائے۔
آپ دیکھیں یہ کیسا اتفاق ہے کہ ادھر امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ wendy sharman پاکستان پہنچتی ہیں اور ادھرافغانستان کے لیے سب سے افسوسناک سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ پھر پاکستان کو کہا جاتا ہے کہ طالبان حکومت کو قبول نہیں کرنا ۔ مجھے تو اس داعش کی کاروائی کے پیچھے ۔۔۔ را ۔۔۔ کا ہاتھ دیکھائی دیتا ہے کیونکہ مسجد میں دھماکوں کا فائدہ بھارت کو ہی ہوا ہے ۔ کیونکہ ایک طرف اس کے بیانیے کو تقویت ملی ہے تو دوسرا امریکہ بہادر نے پاکستان پر افغانستان کو لے کر پھر پریشر بڑھا دیا ہے ۔ دراصل امریکہ سمیت اس کے اتحادی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر افغانستان کی معیشت روس اور چین جیسے مضبوط سہاروں اور پاکستان کی افرادی قوت اور عسکری امداد کے ذریعے بہتر ہونا شروع ہو گئی تو پھر ایران ، پاکستان ، تاجکستان اوراس سے ملحق وسط ایشیائی ریاستیں باہمی تجارت میں شامل ہو جائیں گی جس سے سی پیک کے راستے مزید وسیع ہو جائیں گے۔ چنانچہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی تکون افغانستان کے امن کو برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور یہی ان کا مشن ہے۔ پھر اب یہ راز نہیں رہا کہ کیرالہ ، اتر پردیش اور مہاراشٹر سے داعش کے لیے بھرتی ہوتی ہے اور بھارت ہی میں ان کی تربیت کے لیے بنائے گئے مراکز میں انہیں تربیت دینے کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں اور دوسرے راستوں سے افغانستان میں داخل کرنے کے لیے انڈین خفیہ ایجنسی راء اور افغانستان کی این ڈی ایس کے سابقہ اہلکار پیش پیش ہیں۔ جن کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے۔ ہلیری کلنٹن نے داعش کی تخلیق کے متعلق اپنے انٹر ویو میں جو کچھ کہا تھا وہ بھی ریکارڈ پر ہے اور اس عالمی دہشت گرد گروہ کے بارے بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔ حقیقت میں داعش کی تخلیق کے مقاصد اب کسی کے لیے راز نہیں رہے ۔ داعش اور بھارت اب ایک نام بن چکے ہیں۔ مگر امریکہ نے بھارت کو اپنا مستقبل کا اتحادی ڈکلیئر کیا ہوا ہے۔ لیکن یہی داعش کا سر پرست اعلی بھی ہے۔ اگر ایک تخلیق کار ہے تو دوسرا اسے نفری اور اطلاعات فراہم کرتا ہے ۔ ان تینوں ملکوں کی مثلث یعنی امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کے مقاصد بڑے واضح ہیں کہ افغانسان ، پاکستان اورایران کوچین سے دوررکھا جائے۔ دراصل یہ امریکہ اسٹائل ہے کہ جن ممالک میں امریکی اور اتحادی قوتیں یلغار کے ذریعے اپنا تسلط قائم نہیں کر پاتیں ۔ وہاں داعش کا مہلک وائرس پھیلنا شروع ہو جاتا ہے ۔ عراق ، شام اور لیبیا میں جو کھیل کھیلا گیا اب وہ ہی کھیل افغانستان میں کھیلا جا رہا ہے ۔ اس وقت افغانستان کے امن کو سبو تاژ کرنے کی بھیانک سازش رچی جا رہی ہے ۔ جس کے بعد ممکن ہے پورا مغرب یہ چلانا شروع کر دے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو روکا نہیں جا رہا۔ ان پر پابندیاں لگاؤ ۔ ان کا سب کچھ بند کر دو ۔
۔ کیا یہ حیران کن نہیں ہے کہ جس دہشت گرد گروہ نے اپنی شناخت ۔۔۔ دولت اسلامیہ ۔۔۔ کے نام سے بنائی ہے اُس کو نہ تو بھارت میں آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلم کشی دکھائی دیتی ہے۔ نہ ہی گائے کے قریب سے گزرنے والے مسلمانوں کی انتہا پسند ہندوئوں کے ہجوم کے ہاتھوں المناک شہادت نظر آتی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلمان مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں کون لوٹ رہا ہے؟ یہ بھی اسکو نظر نہیں آتا ۔ نہ ہی کبھی اسرائیل کے غزہ اور فلسطین میں جبر کے مناظر ان کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ داعش کا ہر حملہ اور اس کے بنائے گئے لشکر وں کا ظلم ایسے مسلمانوں ہی پر ہوتا ہے جو امریکہ کی غلامی سے دور بھاگتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس عالمی دہشت گرد گروہ کو پناہ گاہیں کون دے رہا ہے؟ فنڈنگ کون کررہا ہے ۔ مدد کون فراہم کر رہا ہے ؟ اس کا بڑا آسان سا جواب ہے کہ آپ دیکھیں کہ ۔ داعش کس کے مقاصد پورے کر رہی ہے؟ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کسی سے بھی پوچھا جائے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف کس کا مشن پورا کر رہی ہے۔ پھر اس بارے میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کا دعویٰ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں کہا تھا کہ افغانستان میں داعشی جنگجوئوں کو امریکی افواج سپورٹ کررہی ہے۔ داعش سے نمٹنا صرف افغان طالبان کی ذمہ داری نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک ۔۔۔ پاکستان، ایران، چائنا، وسطی ایشیائی ریاستیں اور روس ۔۔۔ کے لئے اس ناسور کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنا ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ مستقبل قریب میں یہ پورے خطے کوایک نئے عذاب سے دوچار کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر آپکو یاد ہو تو دو ہزار سترہ میں سندھ میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی داعش ہی نے قبول کی تھی جس میں نوے کے قریب زائرین شہید ہوئے تھے۔ حال ہی میں بلوچستان کے ضلع مچھ، مستونگ میں حملوں کے پیچھے بھی داعش کا ہاتھ تھا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بھی یہ تنظیم اپنی موجودگی کا ثبوت دیتی رہی ہے۔
دوسال قبل اس تنظیم نے افغانستان کی طرز پر پاکستان میں ’’دولت اسلامیہ ولایۃ ‘‘ کے نام سے اپنا فرنچائز کھولا تھا ۔ افغانستان میں پچھلے چند سالوں کے دوران جتنے بھی حملے ہوئے۔ اس کی ذمہ داری اعلانیہ طور پر اس تنظیم نے قبول کی ہے۔ تو اس کا قلع قمع کرنا صرف طالبان حکومت ہی نہیں خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے ۔ ۔ آخر میں بس یہ بتا دوں کہ آپ امریکہ طالبان کے خلاف تمام پابندیوں کو ایک طرف رکھیں اور یہ دیکھیں کہ امریکہ ان لوگوں پر پابندیاں کیوں عائد نہیں لگاتا جو افغانستان کو لوٹ کر بھاگے ہیں اور امریکہ میں جائیدادیں خرید رہے ہیں۔۔ تازہ خبر ہے کہ افغانستان کے سابق وزیر دفاع عبدالرحیم وردک کے بیٹے داؤد وردک نے los angles میں 20.9 ملین ڈالر کی ایک عالیشان حویلی خرید لی ہے۔ داؤد وردک miami beach کے مہنگے ترین resort میں 5.2 ملین ڈالر کے ایک یونٹ کے مالک بھی ہیں۔ امریکہ کی اس خرید و فروخت پر بھی نظر ہونی چاہیے۔ کیا پابندیاں صرف طالبان کے لیے ہی ہیں۔