۔ اچھا ایک چیز جو میں کمنٹس میں ، سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پرمسلسل دیکھ رہا ہوں کہ لوگ بہت طعنے دے رہے ہیں کہ شاید ہم طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ مشورے دے رہے ہیں کہ اتنے اچھے آپکو طالبان اور ان کا نظام لگتا ہے تو افغانستان چلے جائیں تو ۔ میں آپکو بتاوں ہو کیا رہا ہے ۔
۔ ہم بھی اور بھی کئی لوگ کئی دنوں سے کہہ رہے تھے کہ یہ نظر آرہا ہے کہ طالبان نے افغانستان پر غلبہ حاصل کرکے وہاں حکومت بنا لینی ہے تو ہم نے رپورٹ تو کرنا ہے جو دیکھائی دے رہا ہے ۔ کوئی اور فورس آتی ہے اور وہ طالبان کو ہٹاتی ہے تو ہم وہ بھی رپورٹ کریں گے ۔ تو اس چیز کو ذہن میں رکھیں ۔ اب اچھی چیزیں سامنے آرہی ہیں تو اچھا ہی رپورٹ کریں گے ۔ جب بری آئیں گی تو بڑا بھی رپورٹ کریں گے ۔۔ دوسرا جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم بڑے خوش ہیں طالبان سے اور وہ اتنے ہی اچھے ہیں تو آپ وہاں چلے جائیں تو اس کی مثال کچھ یوں ہے ۔ کہ ہم تو فن لینڈ سے بھی بڑے خوش ہیں ۔ ہم تو ناروے سے بھی بہت خوش ہیں ۔ بڑے اچھے ملک ہیں ۔ بڑے خوبصورت ملک ہیں ۔ انسانی حقوق کا ان ملکوں میں بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔ لیکن ہم وہاں نہیں جاتے ۔ تومیری نظر میں یہ بیکار کی باتیں ہیں ۔ جو لوگوں کو خوشی ہورہی ہے ۔ جو memesبن رہی ہیں ۔ لطیفے چل رہے ہیں ۔ پرانے آڈیو اور ویڈیو کلپس اس حوالے سے وائرل ہورہے ہیں وہ لوگوں کو یہ خوشی نہیں کہ طالبان جیت گئے ہیں ۔ طالبان نے معرکہ سر کر لیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ امریکہ ہار گیا ہے ۔ اس کے بڑے بول زمین بوس ہونے پر لوگ خوش ہیں ۔ وہ جو امریکہ کہتا تھا کہ either you are with us or against usاس پر خوش ہورہے ہیں کہ امریکہ زلیل ورسوا ہوکریہاں سے نکالا ہے ۔
۔ اسی لیے اب تو جوبائیڈن بھی کہہ رہا ہے ۔ کہ افغانستان کو درست طور پر سپرپاورز کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہم نے گزشتہ 20 سالوں میں دیکھا، اس سے ثابت ہو گیا کہ وہاں فوجی طاقت سے کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے۔ یعنی اب امریکہ مان گیا ہے کہ اس کی پالیسی غلط تھی ۔ بش نے غلط حملہ کیا افغانستان پر ۔ ۔ تو آج سے چالیس سال پہلے جو rambo
کی فلم آئی تھی ۔ اس میں اس نے کہا تھا اس وقت ان کو سن لینا تھا ۔ کہ افغانستان سپر پاور کا قبرستان ہے ۔ اب وہ جو سارے لوگ اعتراض کر رہے تھے اور تنقید کررہے تھے وہ جا کرجوبائیڈن کو برا بھلا کہیں ۔ ۔ اس چیز پر بات کریں نہ یہ کہ امریکی کتنے موقع پرست ہیں کہ اپنی تمام ہار کی ذمہ داری جوبائیڈن نے افغان فوج پر ڈال دی ہے ۔ کہ مجھ کو افغان لیڈر شپ کہہ رہی تھی کہ ہم لڑیں گے یہ کریں وہ کریں گے ۔ مگر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ تو ہمارا کیا قصور ۔ ۔ تو امریکہ ، اسکے حمایتوں اور امریکی انتظامیہ کو ذرا آئینہ دیکھا دوں کہ یہ جو مغرب کا رونا دھونا ہے کہ بندوق کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرناجائز ہے۔تو جب افغانستان پر حملہ ہوا ، عراق پر حملہ ہوا ، لیبیا پر حملہ ہوا وہاں امریکہ نے کیسے تبدیلی لانے کی کوشش کی ۔ ۔ بندوق کی زور پر ۔۔ تو یہ لاجک اپنی موت آپ مر جاتی ہے ۔ اور عراق یا لیبیا میں کون سے weapons of mass destruction مل گئے ۔ ساتھ ہی ایران نے کتنے ممالک پر حملہ کر دیا ہے جو پابندیاں لگائی گئیں ۔ جبکہ دیکھا جائے تو امریکہ نے ہی کیا دو دفعہ نیو کلیئرحملے ۔
۔ اب آپ خود سوچیں کہ آپ کی پالیسی جو ہے وہ کتنی دیر پا اور دوراندیش ہے ۔ اب یہ امریکہ اور مغرب نے سوچنا ہے ۔ ہم تو ویسے ہی third world country ہیں ۔ ہمیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔ کیوبا ، ویتنام ، عراق ، ایران ، لیبیا ، شام ہر جگہ امریکہ کو مار پڑی ہے ۔ تو رہنے دو نہ یار ۔ امریکہ نے ہمیشہ صرف تباہی کی ہے ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے ۔ اب اس کے اخلاقی جواز یا غیر اخلاقی جواز کی بحث اپنی اہمیت کھو چکی ہے ۔ کچھ لوگ اسے آج مان لیں گے اور کچھ کل ۔ ۔ جیسا کہ چین اور روس نے طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا اعلان کردیا ہے تو ایران کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست سے امن کا راستہ ہموارہوگیا ہے ۔ یہاں تک کہ ترکی نے کابل ائیرپورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کا منصوبہ ترک کر دیا۔ یعنی وہ بھی اب پیچھے ہٹ گیا ہے ۔ امریکہ بھی green signal دے چکا ہے کہ وہ بھی طالبان کی حکومت کو مان لے گا اگر طالبان اسکو کچھ تسلیاں کروادیں ۔
۔ اچھا یہ اب حقیقت ہے کہ طالبان کے جیتنے میں اور طالبان کی گورننس میں زمین آسمان کا فرق ہوگا ۔ اس بار آپ دیکھیں تو طالبان بہت کوشش کر رہے ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ پہلے والے طالبان نہیں ہیں ۔ اس سلسلے میں بہت سے ایسے اقدامات بھی کرتے دیکھائی دے رہے ہیں جیسے عورتوں کے متعلق ، دیگر فرقوں کے حوالے سے ، داڑھی کے حوالے ۔۔۔ ۔ چلیں دو چیزوں کا فرق آپکو بتاتا ہوں کہ کابل ایئرپورٹ کا انتظام وانصرام امریکہ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے ۔ وہاں آپ دیکھ لیں کیا ۔ قیامت کا منظر برپا ہے ۔ کہ بیچارے وہ افغانی جو ان کی غلامی کرتے رہے جو ان کو سپورٹ کرتے رہے وہ جہازوں سے نیچے گر رہے ہیں۔ ان کو امریکی وہاں پر گولیاں مار رہے ہیں ۔ پر دوسری جانب وہ اپنے پالتو کتوں تک کو جہازوں کی سیٹوں پر بیٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ اور یہ کوئی مفروضہ یا سنی سنائی خبر نہیں ہے مستند افغان میڈیا رپورٹ کر رہا ہے ۔
۔ دوسری جانب کابل کی سڑکوں پر سکون ہے۔ کاروبار ، سکول سب کچھ کھلا ہے ۔ محرم کے حوالے سے شعیہ کمیونٹی کو اجازت ہے کہ وہ جلوس نکالے ۔ ۔ طالبان رہنما مختلف ہسپتالوں کا دورہ کر رہے ہیں ڈاکٹرز کو کام جاری رکھنے اور تحفظ کی یقین دہانی کروارہے ہیں ۔ تاجر برداری سے مل رہے ہیں ان کو بھی تسلی دے رہے ہیں کہ آپ افغانستان چھوڑ کر نہ جائیں۔ ۔ ایک دن پہلے لوٹ مار کے حوالے سے خبر آتی ہے اگلے ہی روز وہ مسلح افراد گرفتار ہو جاتے ہیں جو طالبان کے نام پر لوٹ مار کر رہے تھے۔ ۔ یہاں تک کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کہہ رہے ہیں کہ طالبان سے مثبت بات چیت ہوئی ہے۔۔ تو طالبان کافی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے سے متعلق ہر پراپیگنڈہ کا اثر زائل کریں اور دنیا کو بتائیں کہ اب وہ نوے کی دہائی والے نہیں ۔ یہ بھی بدل چکے ہیں ۔ ۔ پر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ان کی مرکزی سوچ بدل جائے گی ۔ مرکزی سوچ تو وہ ہی ہے ان کی ۔ کہ طالبان افغانستان کو بنائیں گے تو وہ ہی اسلامی امارات ۔ جس کے لیے وہ کئی دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں ۔ ۔ میری نظر میں مغربی میڈیا یا ممالک اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں ایک نفراسٹکچر بنا دیا ہوا ہے ۔ جیسے سٹرکیں ، پل ، ایئر پورٹس وغیرہ ۔ افغانستان کے خزانے میں بھی کوئی چار بلین ڈالرز ہیں ۔ اور اب افغانستان پر ایک آنے کا قرضہ نہیں ۔ تو اگر وہ پانچ سات بلین ڈالرز قرضہ بھی لے لیتے ہیں اور وہ چار بلین اپنا بھی لگاتے ہیں تو حقیقت میں تو افغانستان ایک لش پش جگہ بن جائے گی ۔ ۔ ایسا ہوجاتا ہے تو افغانستان طالبان کی قیادت میں ایک ماڈل مسلم ریاست بن جائے گی ۔ دراصل یہ چیز مغرب کو خوف زدہ کرتی ہے ۔ کیونکہ یوں ہو گیا تو ہر مسلمان کہے گا کہ ریاست ایسی ہونی چاہیے کیونکہ انکا system of justice عام آدمی کو apeal کرتا ہے ۔ کیونکہ عام آدمی کو آپ جتنا مرضی قانون سمجھا لیں ۔ پڑھا لیں ۔ وہ کہتا ہے کہ یار مجھے چالیس سال ہوگئے ہیں ۔ میرے بزرگ بھی فوت ہوگئے ہیں لیکن ہماری زمین کا مقدمہ وہیں ہے ۔ تو اس کو نہیں سمجھ آتی یہ بات ۔
۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ والا سسٹم خراب ہے اور طالبان والا اچھا ہے ۔ یا طالبان کا خراب ہے اور یہ والا سسٹم اچھا ہے ۔ ۔ بات کی جائے تو یہ درست ہے طاقت کا توازن اس وقت طالبان کے حق میں ہے۔ لیکن صرف طاقت کے بل بوتے پر طالبان، افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتے، کیونکہ خود امریکہ اور نیٹو ممالک اس حکمت عملی میں ناکام ہو چکے ہیں۔۔ بیس سال پہلے اور آج کے طالبان میں فرق یہ ہے کہ اس بار وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ بیس سال پہلے وہ جنگ و جدال کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔۔ میرا خیال ہے کہ افغانستان کے طالبان نے خانہ جنگی سے گریز اور اپنے رقیبوں ، دشمنوں کو عام معافی دینے کا جو اقدام اٹھایا ہے۔ وہ ایسا اقدام ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ساری دنیا، طالبان کی اس دریا دلی اور ”نئی بصیرت“ پر حیران ہے۔ خدا کرے یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھے اور افغانستان کے نئے حکمران افغان عوام کے خیر خواہ ہی ثابت ہوں ۔