ملتان سے اسلام آباد واپسی کے راستے میں ایک ایسی تحریر لکھ رہا ہو جس نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نہ الفاظ اکٹھے ہو رہے ہیں اور نہ ہی سوچ ۔۔۔ پنجاب کا صوبائی درالکومت لاہور اور سرزمین اولیا ملتان میں مختلف اور تاریخی مقامات کا وزٹ کر نے کے بعد ملتان سے اسلام آباد کے لمبے اور تَکا دینے والے سفر کے باعث زہن بھی ماوّف ہیں اور نیند کی غلبے کی وجہ سے لکھنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے ۔

چلتی ہوئی گاڑی میں یوں بھی کچھ لکھنا آسان نہیں ہوتا !
راستوں کی نہ ہمواری کے باعث ہاتھ ایک جگہ پر ٹھہر ہو ہی نہیں پاتا۔۔اور آج تو محض ہاتھ نہیں سوچھے بھی تو کسی ایک نقطے پر ٹھہر نہیں ہو پا رہی ۔۔ کیونکہ ملتان میں جو دیکھا ہے اُس نے میرے دیکھنے اور سوچھنے کے تمام زاویوں کو بدل کر رکھ دیا ہیں ۔
میں نےبیس برسوں میں شاید یہ پہلی بار دیکھا ہوں ۔

یہ کہانی ” حضرت شاہ شمس تبریزی سبزواریؒ کی مزار کے احاطے میں ہونے والے وہ مناظر جس پرلکھنا بھی مشکل ہے ۔ وہ مناظر آپ آخر میں اس تحریری نوٹ میں پڑھ لیں گے لیکن حضرت شاہ شمس تبریزی سبزواریؒ کے بارے جو قصہ مشہور ہے پہلے وہ زرا پڑھیئے گا. کہتے ہیں ملتان میں گرمی اس لیے زیادہ ہے کہ سینکڑوں برس پہلے شاہ شمس نام کے ایک بزرگ ملتان تشریف لائے تھے۔ روایت ہے کہ ایک روز اُن کا جی چاہا کہ وہ بوٹی بھون کر کھائیں۔ مورخین کہتے ہیں بوٹی بھوننے کے لئے شاہ شمس نے ملتانیوں سے آگ مانگی۔ اور اہل ملتان نے اس درویش کو آگ دینے سے انکار کردیا۔ درویش کوجلال آگیا۔ نام ان کا شمس تھا انہوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور شکوہ کیا کہ ملتان والے بوٹی بھوننے کے لئے مجھے آگ نہیں دے رہے۔ ایسے میں سورج شمس کی مدد کو آیا بلکہ روایات کے مطابق سورج سوا نیزے پر آ گیا۔ اورشاہ شمس نے سورج کی گرمی میں بوٹی بھون کر مزے سے کھا لی۔ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا اسے ملتانی زبان میں” دھپ سڑی “کہا جاتا تھا پھر یہ سورج میانی کہلایا اور جب امن محبت کا درس دینے والے ملتانی فرقوں میں تقسیم ہو گئے تو کچھ لوگ اسے شیعہ میانی بھی کہنے لگے۔ بوٹی بھوننے والی اس روایت میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں لیکن یہ کچھ سوالات کو ضرور جنم دیتی ہے۔ مثلاً یہی سوال کہ آخر ملتانیوں نے شاہ شمس کو آگ دینے سے انکار کیوں کر دیا تھا؟ اگر وہ ایسے نہ کرتے تو شاید یہ شہر اس زمانے سے اب تک اس طرح سورج کے عتاب کا شکار بھی نہ ہوتا۔ ایک خیال یہ بھی ابھرتا ہے کہ کیا ملتان والے اس زمانے میں کسی کو آگ دینے کے بھی روادار نہیں تھے؟ خیر روایات اور قصے کہانیوں پر ہم تو آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کرتے۔ ہاں جو یقین کرتے ہیں انہیں پھر یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ روادار سمجھے جانے والے ملتانی کسی زمانے میں کسی کو آگ دینے کے بھی روادار نہیں تھے۔ لیکن اس تذکرے کو چھوڑیں اور آیئے وہ مناظر ملاحظہ کیجئے۔

برصغیر کے معروف صوفی بزرگ شیخ اسلام حضرت بہاالدین زکریا اور سلسلہ سہروردیہ کے مشہور و معروف روحانی پیشوا حضرت شیخ شاہ رکن عالم رحمتہ اللہ علیہ کی مزار کے بعد چند منٹ کے فاصلے پر حضرت شاہ شمس تبریزی سبزواریؒ کی مزارکا رخ کرلیا۔
ملتان کے گنجان گلیوں میں واقع شاہ شمس تبریزی کے مزار پہنچے تو مزار کے تمام داخلی راستوں پر دس زیادہ پولیس اہلکار تعینات کردی گئی تھی۔ راستے میں تین جگہ جامہ تلاشی دینے کے بعد مزار کے احاطے میں داخل ہو ۔ مزار پر زائرین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جو لوگ زیارت کے لیے آئے تھے وہ جوش وجذبہ سے بھرپور تھے۔

اب میں عین اُس ہال میں کھڑا تھا جہاں پر بہت آسانی سے تمام تر ہونے والے عمل کو نوٹ کیا جاسکتا ہے ۔میری پہلی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو چہچ چہچ کر کہتا تھا کہ مولا مجھے یہاں موت نصیب کریں ۔ ساتھ میں کھڑی جوان لڑکی رو رو کر یہ دعا مانگتی تھی کہ بابا تین سال ہونے کو ہے مگر پھر بھی اولاد نہ ہوئی۔ ایک اور عمر رسیدہ شخص مزار پر چادر ڈال کر چلتے چلتے دو تین سجدے کر کے چلے گئے۔ وہاں موجود ہر دوسرا شخص ایسی ایسی حرکتے کررہے تھے جسے دیکھ کر میری اندر کی روح کانپ اُٹھی ۔کچھ لوگوں نے قبر کے ساتھ لگی ہوئی گریل کو تالا لگا کر اپنی من پسند دعائیں کی ۔۔خواتین زائرین نے سرخ اور کالا دھاگہ باندھ کر منتے مانگتی رہی۔ ایک اور اندھے مقلد نے اپنی نئی نویلی دہلن کے ساتھ اسی دعا سے رخصت ہوئے کہ شادی کی زندگی کے بعد سکون ملے۔ اس علاوہ لڑکے اور لڑکیاں مزار کے اندر ایک دوسرے کو انگوٹھی پہن کر” بابا” کو گواہ بناتے رہے۔کچھ مردوعورت اپنے محسوس انداز میں قبر کا طواف کر رہے تھے ۔ متعد افرا دیا جلا کر عجیب قسم حرکتیں کرہے تھے ۔ چند حضرات قبر کے ساتھ لیٹ کر پورے دن کی تکاوٹ دور کر رہے تھے ،سیڑ یوں میں بیٹھے چرس کے نشے میں دُھن نشائی اس کے علاوہ تھے۔

یہ وہ مناظر تھے جو بیان کرسکا اس کے علاوہ جو ہے وہ نہ قابل بیان ہے نہ تو اس کےلیے الفاظ ہے اور نہ ہی ہمت ۔۔۔یہ تحریرلکھتے ہوئے زہن میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ یہ دنیا اب بھی اندھے مقلدینوں سے بَری پڑی ہے ۔مزار کی تقدس پامال کرنے میں ان اندھے مقلدینوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ جن چیزوں سے ہمیں روک دیا گیا ہے ان سے بازنہیں آتے ۔
آج کل ہم اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں ہر مسئلہ میں آزادی چاہئے ہر معاملہ کو طبیعت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں خواہ وہ مسئلہ عین شریعت کے مطابق ہو یا نہ ہو،آج ہم جہالت میں اس طرح ڈوب چکے ہے کہ محض طبیعت کو اپنی خواہشات کا ذریعہ بنالیا ہے جو طبیعت کہتی ہے، جس کی طرف عقل چلنے کو کہتی ہے اس طرف وہ دوڑتا ہوا نظر آتا ہے خواہ وہ غلط ہو یا ٹھیک ۔ عقل وطبیعت کی لاٹھی نے ہمیں مار کر اس قدر اندھا کردیا ہے کہ غلط اور ٹھیک میں تمیز نہیں کر پاتے کہ کون سی چیز ہمارے لیے ٹھیک ہے اور کون سی چیز غلط ہے۔

ہماری دھرتی پر سب سے زیادہ بوجھ جہالت کا ھے جو انسانوں کے دماغ کو مفلوج بنا دیتی ہے. ‏ہماری قوم ہر دوسری چیز کو قیامت کی نشانی کہہ دیتی ہے مگر مجال ہے اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی وہ اپنا قبلہ درست کرنے کو تیار نہیں !

Jawad_Yusufzai@

Shares: