قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے
تم تو بیچ آئے اسے مصر کے بازاروں میں
اردو کی معروف پاکستانی شاعرہ عنبرین انصاری المعروف عنبرین حسیں عنبر 23 جون 1981 میں کراچی میں پیدا ہوئیں وہ اردو کے ممتاز شاعر ا ماہر تعلیم پروفیسر سحر انصاری کی صاحبزادی ہیں۔ عنبرین حسیں عنبر کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں ۔ ان کے اب تک دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں وہ کراچی سمیت ملک بھر کے مشاعروں میں شرکت کرتی رہتی ہیں اور مشاعروں کی مقبول ترین شاعرات کی فہرست میں شامل ہیں۔
شعری مجموعے
۔ (1)دل کے اُفق پر-2012ء
۔ (شعری مجموعہ)
۔ (2)تم بھی ناں-2020ء
۔ (شعری مجموعہ)
عنبریں حسیں عنبر کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے
پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں
تعلق جو بھی رکھو سوچ لینا
کہ ہم رشتہ نبھانا جانتے ہیں
مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی
میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو
اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی
تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا
کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک
اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں
انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے
عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت
خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے
اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے
ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
بھول جوتے ہیں مسافر رستہ
لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی
دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے
خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے
محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے
در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا
کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل
میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی
زندگی میں کبھی کسی کو بھی
میں نے چاہا نہیں مگر تم کو
وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا
مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم
جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں
کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے
کیا خوب تماشہ ہے یہ کار گہ ہستی
ہر جسم سلامت ہے ہر ذات ادھوری ہے
عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے
زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم
اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے
لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا
تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی
سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی
اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا
مانوس بام و در سے نظر پوچھتی رہی
ان میں بسے وہ لوگ پرانے کہاں گئے
پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک
نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے
قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے
تم تو بیچ آئے اسے مصر کے بازاروں میں