آپ میں سے کس کو یقین ہے کہ پولیس کے ہاتھوں قتل ہونیوالے سمیع کو انصاف ملے گا، آصف محمود
حافظ سمیع الرحمن کے لاشے کی تصویر دیکھ کر ایک ہی سوال پیدا ہوتا ہے وہ میں آپ سب کے سامنے رکھ دیتا ہوں.
سوال یہ کہ آپ میں سے کتنوں کو یقین ہے اس معاملے میں انصاف ہو جائے گا؟ ایک دو تین چار یا چلیے دس سال میں بھی ایسا کوئی امکان ہے؟
مزید کتنوں کا خیال ہے کہ مقتول کے باپ کے لیے جمع پونجی بیچے بغیر حصول انصاف کے مراحل سے گزرنا ممکن ہو گا؟
ان دونوں سوالات پر غور کیجیے اور جواب کی ڈور کا کوئی سرا ہاتھ آئے تو پھر سوچیے اس معاشرے کا مستقبل کیا ہے؟ ایک عام آدمی اس پر کم از کم آواز تو اٹھائے. اب یہ سوچنا کا مقام ہے سوشل میڈیا پر ہماری توانائیاں اپنے اپنے حصے کے سیاسی رہنما کی مدح سرائی اور دوسروں کی ہجو میں ہی ضائع ہونی ہیں یا کبھی سماج کے حقیقی مسائل بھی زیر بحث آئیں گے؟
واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور میں پولیس اہلکار سے دوستی نہ کرنے کے جرم میں نوجوان کو قتل کر دیا گیا
قصور کے علاقے کھڈیاں میں قاری خلیل الرحمن کے حافظ قرآن بیٹے کو عید کے دن ہی پولیس کانسٹیبل نے بری نیت سے دوستی اور برائی نہ کرنے پر قتل کر دیا
واقعہ کا مقدمہ حافظ قرآن کے والد قاری خلیل الرحمان کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے، والد کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم معصوم علی نے میرے بیٹے سمیع الرحمان کو عید کے روز صبح مسجد جاتے ہوئے گلی میں روکا اور کہا کہ عید کے دن بھی میری بات نہ مانی تو اچھا نہیں ہو گا، میرے بیٹے نے انکار کیا تو ملزم نے فائرنگ کر دی جس سے میرا بیٹا زخمی ہو گیا، اسے علاج کے لئے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسکی موت ہو گئی
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ملزم عیاش قسم کا آدمی ہے اور میرے بیٹے کو ہراساں کرتا رہتا تھا، اسکے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے
جنسی خواہش پوری کرنے سے انکار،پولیس اہلکار نے عید کے روز حافظ قرآن نوجوان کو قتل کر دیا