پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ برطانوی ہند میں برصغیر کے مسلمان پاکستان کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے دوران یہ نعرہ لگایا کرتے تھے، اس نعرے کے خالق سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے اصغر سودائی ہیں انھوں نے اسے 1944ء میں ایجاد کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے طول و عرض میں ہونے والے مسلم لیگی جلسوں میں گونجنے لگا۔ اس نعرے سے پاکستان کی مذہبی تشخص بھی واضح ہوتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی وجہ سے کہا تھا کہ تحریک پاکستان میں اصغر سودائی کا کردار 25 فیصد ہے

جیسا کے ہم سب جانتے ہیں اس پاک سرزمین پاکستان کا قیام 14 اگست 1947 کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی بابرکت رات لیلتہ القدر کی شب معرض وجود میں آیا جبکہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم قیام پاکستان سے تین روز قبل فرانس کی سرزمین پر 11 اگست 1947 کو سب سے پہلے لہرایا گیا اس بات کے گواہ معروف محقق عقیل عباس جعفری
ہیں جن کے مطابق متحدہ ہندوستان کے بوائے اسکاوُٹ کا دستہ عالمی اسکاوُٹ جمبوری میں شرکت کے لیے فرانس میں موجود تھا کہ بین الاقوامی اخبارات میں یومِ پاکستان کی خبریں شائع ہونے لگیں تو دستے میں موجود مسلمان اسکاؤٹس نے فیصلہ کیا چاہے جو بھی ہو چودہ اگست کو ہمارا الگ ملک بن جائے گا تو اس دن ہم کسی بھی صورت انڈیا کے جھنڈے کو سلامی نہیں دیں گے بلکہ اس دن ہم اپنے الگ ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے سبز ہلالی پرچم کے نیچے الگ کھڑے ہوں گے

تمام شواہد کے مطابق انھوں نے وہاں دستیاب ذرائع سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تیار کیا اور اس طرح برصغیر سے دور فرانس کی سرزمین پر باقاعدہ طور پر پاکستان کا پرچم پر کیف فضاؤں میں سب کے سامنے لہرایا گیا
پاکستان کے قومی پرچم کا سرکاری نام پرچم ستارہ و ہلال ہے سبز ہلالی پرچم کا ڈیزائن ترتیب دینے والی شخصیت امیر الدین قدوئی ہیں جنہوں نے قائداعظم کے حکم پر پاکستان کے پرچم کا ڈیزائن ترتیب دیا اور یوں پاکستان کا اپنا پرچم معرض وجود میں آیا جبکہ پاکستان پہلا پرچم ماسٹر الطاف حسین اور افضال حسین نے سیا تھا

یہ گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے گہراسبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سبز حصے کے بالکل درمیان میں چاند(ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہوتاہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔

کسی سرکاری تدفین کے موقع پر’ 21′+14′, 18′+12′, 10′+6-2/3′, 9′+6-1/4سائز کا قومی پرچم استعمال کیا جاتا ہے اور عمارتوں پر لگائے جانے کے لئے 6′+4′ یا3′+2′کا سائز مقرر ہے

ہم سب جانتے ہیں اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں محب وطن پاکستانی موجود ہیں وہ آزادی کا جشن منانے کی تیاریاں کرنے لگ جاتے ہیں اور پاکستان میں تو ایک نیا جوش و ولولہ دیکھنے کو ملتا ہےپورے ملک میں جگہ جگہ جھنڈے اور جھنڈیوں کے سٹالز لگ جاتے ہیں ملی نغمے اور ترانے بجنا شروع ہوجاتے ہیں اگست کے مہینے میں آپ کا گزر پاکستان کے جس شہر گلی محلے یا صوبے سے ہو کراچی سے خیبر تک اور کشمیر سے گلگت اور خنجراب تک ہر جگہ پاکستانی پرچم اور ترانے چلتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں

جہاں آزادی کی خوشی منانا ہم سب کے لیے ضروری ہے وہیں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کے اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے بڑوں نے کتنی قربانیاں دی کیسے اپنے کندھے جھکا دیے لیکن نا تو اپنے حوصلےجھکنے دیے اور نا ہی اپنی پہچان سبز ہلالی پرچم کو نیچے جھکنے دیا نا کبھی گرنے دیا اپنے سر تن سے جدا کرا لیے لیکن اپنی ملک کی بقا کو ٹھیس نہیں پہچنے دی یہ ملک ایسے ہی مفت میں نہیں مل گیا اس کے لیے خونِ دل صرف کیا گیا ہے اس پاک دھرتی کو ان گنت جانوں کے نظرانے دے کر اور خون پلا کر سیراب کیا گیا تھا اس کے بعد کہیں جا کر الگ وطن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے

لیکن آج جب میں اپنے ملک کے باشندوں کو اور نوجوان نسل کو دیکھتا ہوں تو دیکھ کر سکتے میں چلا جاتا ہوں کے اس قوم کے لیے پاکستان بنا تھا یا پاکستان نے ایسی قوم بنائی ہے؟ تو اس کا جواب مجھے واضح انداز میں مل گیا کے پاکستان نے ایسی قوم نہیں دی کیونکہ ماضی کے جھرونکوں میں ایک نظرڈال کر دیکھیں تو بالکل عیاں ہوجائے گا کے پاکستان نے قائداعظم ، علامہ اقبال ، شاہ ولی اللہ ، سرسید احمد خان نواب لیاقت علی اور ناجانے کتنےمعتبر اور اعلی قسم کے لوگوں سے ہمیں نوازا ہے جن کی مرہون منت الگ ریاست کا جواب پورا ہوا

آج نوجوان نسل آزادی کا جشن صرف ہلڑ بازی، ناچ گانے، سڑکوں پر ون ویلنگ اور شور شرابہ کرنے والے باجے بجا کر مناتے ہیں جس سے لوگوں کو تکلیف کے سوا اور کچھ نہیں ملتا اور حادثات میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے سوا یا ماؤں کے گود اجڑنے کے سوا اور کچھ نہیں ملتا کیا ہمیں آزادی اسی کام کے لیے ملی تھی ؟ ہم کس طرف جا رہے ہیں یہ ہم سب کو آج سوچنا ہوگا اور آنی والی نسل کے لیے بہترین مثالیں چھوڑنی ہونگی تاکہ نئی نسل حقیقی معنوں میں اپنی آزادی اور اس ملک کی قدر کو پہچان سکے

اس سب سے ہٹ کر سب سے افسوس ناک چیز جو میں نے دیکھی ہے وہ سبز ہلالی پرچم کی توہین جسے صرف 14 اگست تک تو اپنی گاڑیوں اور کپڑوں کے ساتھ سجا کر رکھا جاتا لیکن جیسے ہی آزادی کا یہ دن اختتام پذیر ہوتا اگلی ہی صبح پورے ملک میں ایک الگ ہی نقشہ ابھر کر سامنے آیا ہوتا ہے جس پرچم کے ایک دن پہلے سب سینے سے لگا کر چلتے ہیں اسے پندرہ اگست کو اتار کر نالیوں میں گٹروں میں سڑکوں پر اور بازاروں میں اتنی تذلیل کے ساتھ پھینک دیتے ہیں جیسے زمیں پر پڑا وہ پرچم چیخ چیخ کر پکار رہا ہو کے مجھے اس ملک میں رہنا زیب نہیں دیتا تھا یہ میں کن لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا ؟

اتنی طویل تحریر لکھنے کا مقصد صرف آپ سب کو یہ بتانا ہے کے اس پرچم کی تذلیل کو مزید آگے مت بڑھنے دیں یہ پرچم ہماری پہچان ہے اور جو قومیں اپنی پہچان کو پاؤں تلے روندتی ہیں دنیا انکی کبھی قدر نہیں کرتی کیوں کے ہم سب اپنی پہچان خود مٹانے پر تلے ہیں ہم سب میں اخلاقیات کا بہت فقدان ہوچکا ہے تبھی اتنی بے دردی سے ہم اپنے آزاد ملک کی آزادی کے دن اپنے ہی پرچم کے ساتھ دشمنوں والا رویہ رکھتے ہیں اور صرف ایک دن کا دکھاوا کرتے ہیں یقین مانیں دل خون کے آنسو روتا ہے جب اپنے پرچم کی بے حرمتی کو دیکھتا ہوں لیکن میرا ملک بہت عظیم ملک ہے انشااللہ اس امید کے ساتھ کے اب کی بار اس آزادی پر وہ سب نہیں ہوگا جو آج سے پہلے ہوتا چلا آیا ہے

اپنی آزادی کے لیے اپنے ملک کے لیے اپنے پرچم کی قدر کرو

اللہ اس وطن عزیز اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین یا رب العالیمن

@Saimladla786

Shares: