اپنوں کے لیے گھر کے کام کرنے میں کوئی عار نہیں!!! — ڈاکٹرعدنان نیازی

میرے ایک جاننے والے ہیں جن کی بیٹیاں ہماری یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ ہمارے گھر کے قریب والی ایک مسجد میں نماز پر پچھلے دو تین دن سے ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھ لیا کہ آپ کا گھر تو مسلم ٹاؤن کی طرف ہے تو یہاں خیریت سے روز آتے ہیں۔ کہنے لگے کہ میری بیگم کا ایک بیماری کی وجہ سے آپریشن کروانا پڑا ہے۔ گھر میں کھانا وغیرہ وہی بناتی تھیں تو اب جب سے وہ بستر پر پڑی ہیں تو یہاں سے شام کو اپنی بہن کو لے کر جاتا ہوں وہ کھانا وغیرہ بنا آتی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کی تو ماشاءاللہ تین بیٹیاں جوان ہیں اور تینوں گھر ہیں تو پھر بھی کھانے پکانے کے بہن کو لیجانے کی ضرورت پڑتی ہے؟

کہنے لگے کہ ماں نے بیٹیوں کو کھانا پکانا سکھایا ہی نہیں۔ بس پڑھائی میں مصروف رہیں اس لیے کسی کو بھی نہیں آتا۔

میں نے کہا کہ بھائی اگر پہلے نہیں سیکھا تو اب سکھا دیں تاکہ یہ محتاجی ختم ہو۔

وہ مجھے ایسے گھورنے لگے جیسے میں نے پتہ نہیں کیا بات کر دی ہو۔

میرے لیے یہ انتہائی حیرت کی بات تھی۔ لیکن ایسی ہی باتیں اکثر مختلف لوگوں کے رشتے کی بات کہیں چلے تو اکثر سننے کو ملتی ہے کہ بیٹی کو کھانا پکانا تو ہم نے سکھایا ہی نہیں۔ ہماری بیٹی تو نازوں میں پلی ہے۔

ایسے لوگ جو بیٹیوں کو کھانا بنانا نہیں سکھاتے وہ ان میں سے کونسی بات سوچ کر ایسا کرتے ہیں

1۔پہلی آپشن یہ ہے کہ اس کا شوہر ہی کھانا پکا کر اسے کھلائے گا۔ اب اس میں یہ صورتیں ممکن ہیں:

یا تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی جاب کر کے کما کر لائے اور ان کا داماد گھر سنبھالے، کھانا وغیرہ پکائے۔ خود بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی بھی پسند کرتا ہے؟ یہاں تک کہ نہ کوئی بھی شوہر یہ پسند کرے گا اور نہ ہی کوئی بھی بیوی یہ پسند کرتی ہے۔
اسی میں دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ کما کر بھی شوہر لائے اور پھر کھانا وغیرہ بھی وہی بنائے۔
اگر کوئی بھی یہ سوچتا ہے تو پھر یہ بھی بتا دیں کہ کوئی بھی مرد کسی عورت کو بیاہ کر ہی کیوں لائے گا جبکہ گھر اور باہر خود اس نے ہی سنبھالنے ہیں تو پھر مزید ایک شخص کی ذمہ داریاں وہ کیوں اپنے سر لے؟

2۔دوسری آپشن یہ ہو سکتی ہے کہ شوہر کمائے اور بیوی کوئی بھی کام نہ کرے یا پھر وہ بھی جاب کرے اور کھانا بنا نا سب نوکروں کے ذمہ ہو۔ بظاہر یہ ممکن لگتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھیں تو ایسے گھروں کا حلیہ دیکھنے لائق ہوتا ہے جس میں گھر سنبھالنا نوکروں کے ذمہ ہو۔ نوکرانی شاید ہی کوئی ایسی ملے جو دل سے اچھا کھانا بناتی ہو ۔ پھر صفائی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھتی ہیں۔ کوئی بہت ہی امیر کبیر گھرانہ ہو جس نے کئی باورچی رکھے ہوں اور وہ کل وقتی ملازم ہوں تو صرف وہاں یہ چل سکتا ہے لیکن ایسا عام گھرانوں میں ممکن نہیں۔

3۔تیسری آپشن یہ ہے کہ سارا کھانا باہر ہی کھایا جائے یا پھر باہر سے منگوایا جائے۔ یہ کبھی کبھار تو ممکن ہے لیکن ہر وقت نہیں کیوں کہ ایک تو باہر والے ریٹ ہی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ہر وقت منگوانا افورڈ ہی مشکل ہو پائے گا اور پھر اس سے صحت کا جو کباڑہ ہو گا اس کا سب کو معلوم ہے۔

دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، چاہے عورت گھر رہتی ہو یا کام کرتی ہو، کھانا بنانا اس کی ذمہ داری ہے اور وہی اس کو احسن طریقے سے کر سکتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ بہت سے ایسے دوسرے کام ہیں جو ہمارے معاشرے میں صرف مرد ہی کرتا ہے اور عورت کر سکتی ہو تب بھی نہیں کرتی۔ تھوڑا سا بھی غور کریں تو بہت سے ایسے کام مل جائیں گے۔ فرانس میں بھی میں نے دیکھا تھا کہ زیادہ تر گھروں میں کھانا عورت ہی بناتی تھی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہاں اس پر مزیدکمانے کی بھی پوری ذمہ داری ہوتی ہے۔

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ پڑھائی کسی بھی کلاس کی ہو اتنی مشکل نہیں ہوتی کہ اس میں تھوڑا سا وقت بھی گھریلو کاموں کےلیے نکالا نہ جا سکے۔ میٹرک اور ایف ایسی سی کو تھوڑا سا ایسا بنا دیا گیا ہے لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد والی تعلیم میں ایسا کچھ نہیں کہ بیٹیوں کو گھر داری سکھانے کا بھی وقت نہ ہو۔ اس میں سب سے زیادہ نااہلی ماؤں کی ہے۔

کسی بھی ماں کے لیے کہوں گا کہ اگر آپ کو گھر کے کام کرنے میں عار محسوس نہیں ہوتی تو یہ آپ کی بیٹی کے لیے بھی باعث عار نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے شوہر کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے کھانا بنا کر خوشی محسوس کرتی ہیں تو یہی خوشی اپنی بیٹی کو بھی محسوس کرنے دیجیے ۔ اگر آپ یہ پسند نہیں کرتیں کہ آپ کا شوہر، آپ کا باپ یا آپ کی ماں، آپ کا بیٹا یا بیٹی گھر آئے اور اسے کہوں کہ خود بنا لیں یا باہر سے کھا لیں تو پھر اپنے بیٹی کے لیے بھی یہ پسند نہ کریں کہ وہ اپنے سے جڑے رشتوں کے لیے ایسا سوچیں۔

گھر میاں بیوی دونوں مل کر بناتے ہیں۔ اس میں دونوں پر کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اسلام نے مرد کو قوام بنا کر کمانے کی اور حفاظت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ عورت کو معاشی معاملات اور باہر کے معاملات سے بالکل آزاد کر کے صرف گھر کے اندر کی ذمہ داری عورت پر ڈالی ہے۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گا تو گھر کا سکون برباد ہو جائے گا۔

اپنوں کے لیے گھر کے کام کرنے میں کوئی عار نہیں۔ اگر گھر میں یہ کام کر کے راضی نہیں ہونگی تو یاد رہے کہ کمانے کی ذمہ داری مرد لینا چھوڑ دے گا اور پھر بہت سی عورتوں کو یہی کام گھر سے باہر سارے مردوں کے لیے کرنے پڑیں گے۔ نہیں یقین تو ذرا غیر مسلم ممالک کا ایک چکر لگا کر دیکھ لیجیے۔

Comments are closed.