اپٹما کے سیکرٹری جنرل نے ملز بند ہونے کا دعوی رد کر دیا، کہا حکومت مقامی صنعت کو فروغ دے

لاہور:اپٹما کے نائب سیکریٹری جنرل انیس الحق نے ان خبروں کی تردید کردی ہے کہ اس وقت ملک میں 200 ملیں بند پڑی ہیں. انیس الحق نے کہا کہ ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے.یہ خبریں من گھڑت ہیں . باغی ٹی وی کے ساتھ بات چیت میں، انیس الحق نے کہا کہ تقریبا 200 ملز بند ہونے والے حالیہ خبروں کو خود "ڈیزائن” کیا گیا ہے. انہوں نے واضح کیا ہے کہ اپٹما سندھ سے تقریبا 65 ملز منسلک ہیں، انہوں نے وزیر اعظم کی عمران خان کی تجارت کو فروغ دینے کے حوالے سے کوششوں پر زور دیا

باغی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق، کپڑے کی درآمدات جو دست کاری یا اسمگل شدہ ہوتی ہیں شامل ہے. اس طرح پاکستان 7 فی صد حصص کے ساتھ پہنے ہوئے کپڑے کی درآمدات میں سب سےپہلا مقام رکھتا ہے، جس میں بھارت 2 فیصد، یوکرائن میں 4فیصد، متحدہ عرب امارات 3فیصد کے حصہ دار ہیں .یہ اعداد و شمار 2018 کے مطابق ہیں جو اے پی ٹی ایم اے کو فراہم کیے گئے ہیں..

ان اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کو اس سے کافی نقصان پہنچ رہا ہے. حکومت کو چاہیے کہ وہ اس شرح کو صفر پر لے کر آئے.جس سے تجارتی سرگرمیوں کو فائدہ پہنچے ،انیس الحق نے یہ انکشاف کیا کہ لاہور کی اعظم مارکیٹ ، شادمان مارکیٹ جیسے کہ سلیم فیبرکس جو کہ اچھے اور معیاری کپڑوں کے حوالے سے بہت مشہور ہیں. ان کے بارے میں یہی کہا جارہا ہےکہ یہ سب اسمگل شدہ کپڑا ہے جو اکثر وبیشتر افغانستان کےراستے سے آتا ہے.

انیس الحق نے کہا کہ پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے سپر اسٹور اور الطافہ جیسے کاروباری سینٹرز جہاں کپڑے،تولیے،کراکری اور دیگر اشیاء باآسانی مل جاتے ہیں‌کے بارے میں‌مصدقہ خبریں ہیں کہ یہ سب اسمگلنگ کا مال ہے. اعلی کے آخر میں طرز زندگی کی اسٹورز اور سپر مارکیٹ بھی قاضی شدہ سامان فروخت کرنے کے کام میں شامل نہیں ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر، ٹاورز، یا کراکری اور سٹررا کے طور پر.

اس فرق پر قابو پانے کے لئے، اپٹما چاہتی ہے کہ حکومت کو مندرجہ ذیل اقدامات کرنے چاہیں.سیلز ٹیکس صفر یا کم ہونا چاہیے.ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے مقامی صنعت کو فروغ ملے اور مقامی صنعت میں تیار ہونے والے سامان کی حوصلہ افزائی ہو.روایتی تجارت کو فروغ دیا جائے

انیس الحق نے مزید کہا کہ پاکستان میں لومز ملز ایک بہت بڑا کاروبار تھا پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات نے ان ملز کو بند ہونے پر مجبور کر دیا .انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاکستان میں ان ملز کی بحالی اور کپڑے کی صنعت میں بہتری کے لیے اے پی ٹی ام اے کی تجاویز کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے .

حکومت پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہیں.جس سے پاکستان کی کپڑے کی صنعت کو اسمگلنگ سے نقصان سے بچایا جا سکے اور دونوں ممالک باہمی تجارت پر توجہ دیں تاکہ اس سلسلےمیں مواقع پیدا ہوں .انیس الحق نے آخر میں تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ہماری تجاویز پر عمل کرتی ہے اور مقامی صنعت کو فروغ دینےکے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ان صنعتوں میں تیار ہونے والے مال کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو پھر ہمیں چوری چپھے مال بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جو غیر قانوںی طریقے سے پاکستان میں لایا جاتا ہے.

Comments are closed.