عقیدہ ختم نبوت کے آئینی و قانونی پہلو تحریر:پیر فاروق بہاؤالحق شاہ

0
63

عقیدہ ختم نبوت کے آئینی و قانونی پہلو
تحریر:پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس ہے۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر قصر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔اس عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کے وصال ظاہری کے بعد مملکت اسلامیہ کی دگر گوں حالت کے باوجود خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ نے منکرین ختم نبوت کے خلاف بھر پور جہاد کیا۔صحابہ کرام کی بھاری تعداد ان جنگوں میں شہید ہوئی۔لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان سے تعرض نہ فرمایا۔بلکہ ان کے خلاف جہاد مکمل کیا۔ختم نبوت اتنا اہم مسئلہ ہے کہ قرآن کریم میں واضح الفاظ اس امر کا اعلان کیا کہ سرکاردوعالمﷺ خاتم النبین ہیں۔بلکہ مختلف پیرائے میں بھی اس امر کی وضاحت کی جاتی رہی۔یہاں تک کہ پوری امت اس بات پر یکسو ہو گئی۔مسیلمہ کزاب،طلیحہ بن خویلد،اسود عنسی یامرزا قادیانی ان سب کے خلاف امت مسلمہ یکسو رہی۔انکے نظریات۔ کا رد کیااور۔۔ انکے خلاف جہاد کیا۔اور اسلام کی بنیادی اساس کی حفاظت کی۔قدیم زمانہ اسلام سے لے آج تک مختلف علماء۔ مفصرین،محققین نے نے ختم نبوت کے حوالے سے گراں ا قدر خدمات سر انجام دیں۔مرزا قادیانی کے جھوٹے دعوی نبوت کے بعد پیر سید مھر علی شاہ گولڑوی سید ابوالحسنات شاہ قادری،مولانا سید محمد یوسف بنوری، ،آغا شورش کاشمیری،سید عطا اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمود،مولانا عبدالستارخان نیازی،ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری سیمت متعدد قابل قدر بزرگوں نے ہر میدان میں انکا تعاقب کیا۔حالیہ ایام میں جس انداز میں عقیدہ ختم نبوت پر گفتگو کی گئی۔دشام طرازی کا بازار گرم ہوا اس سے ہر ذی شعور شخص نہ صرف اس رویے پر پریشان ہے بلکہ مغموم بھی ہے۔پاکستان ایک دستوری ریاست ہے۔اسکا ایک تحریری آئین ہے۔جس میں تمام باتیں واضح طور پر درج ہیں۔قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت کی اتنی مظبوط قانونی و دستوری وجوھات موجود ہیں جسکے ہوتے ہوئے ہمیں کسی کمزور بحث کی ضرورت نہیں۔قرارداد مقاصد جو کہ دستور پاکستان کا دیباچہ ہے اس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہو گی۔دستور کے آرٹیکل (۱) کے مطابق یہ ایک اسلامی مملکت ہو گی جبکہ آرٹیکل(۲) میں درج ہے کہ یہاں کا کوئی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہیں ہو گا۔اس طرح دستور کی شق (1)227کے تحت پارلیمنٹ کواختیار نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی کر سکے۔بلکہ وہ قوانین جو قرآن وسنت کے خلاف ہیں انکی فوری اصلاح کی ہدایت کی گئی ہے۔چناچہ ابتدائی طور پر ملک پاکستان اپنے دستور کے تحت اس بات کا پابند تھا کہ یہاں پر قادیانیوں کے خلاف قانون سازی کر کے ایک آئینی ضرورت کو پورا کیا جاتا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد جب حکمرانوں نے اس دستوری ضرورت سے انحراف کیا تو 1953میں مسلمانوں کو سڑکوں پر آنا پڑا۔خون ریزی،فسادات،گرفتاریاں،سزاوں، اور سب سے بڑھ کر ایک آئین کی خلاف ورزی کر کے شدید بحران پیدا کر دیا گیا۔تاہم فوج کی مدد سے ان فسادات پر قابو پایا گیا۔مقدمات چلے۔مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا موددی کو سزائے موت سنائی گئی۔جسکو بعد میں اعلی عدالتوں نے کاالعدم قرار دے دیا۔ 29 مئی 1974کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پیش آنے والے واقع نے ملک بھی اضطراب پیدا کر دیا ۔ پورے ملک میں تحریک ختم نبوت کا آغاز ہو گیا جسکی قیادت اپنے اپنے علاقوں میں مختلف نوجوان رہنماوں نے کی جن میں حاجی محمد حنیف طیب سندھ میں، پیر امین الحسنات شاہ، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا اللہ وسیا،مولاناخواجہ خان محمد کندیاں والے اور پیر ابراہیم شاہ پنجاب میں،مولانا فضل الرحمن خیبر پختونخواہ میں نمایاں رہے۔ضلع سرگودھا میں تحریک ختم نبوت کا مزکز بھیرہ شریف بنا۔قادیانی تحریک کے کئی اکابرین کا تعلق بھیرہ سے تھا۔اس لئے یہاں کے لوگوں میں اس کے خلاف رد عمل بھی شدید تھا۔حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ نے پنجاب بھر کے مختلف اضلاع۔شہروں اور دیہاتوں کے طوفانی دورے کیے اور اپنی ولولہ انگیز تقریروں سے عوام میں شعور کی ایک لہر پیدا کر دی۔بھیرہ کے تمام مکاتب فکر کے بزرگ جن میں مولانا جلال الدین،مولانا عبدالرشید اور صاحبزادہ ابرار احمد بگوی،حکیم برکات احمد بگوی نمایاں طور پر پیر محمد امین الحسنات شاہ کے ساتھ تھے۔حضور ضیاء الامت کے ایک فرزند پیر محمد ابراہیم شاہ جو کہ فوج میں بطور افیسر منتخب ہو چکے تھے انہوں نے بھی فوج میں اپنی حاضری کو ملتوی کرتے ہوئے ختم نبوت کی اس تحریک میں دلیرانہ کردار ادا کیا۔خاندان ضیاء الامت کے ایک اور فردپیر زاداہ احمد جنید شاہ نے ایک مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے پیر محمد امین الحسنات شاہ کے دست بازو رہے اور اپنی دلیری سے دشمنان اسلام کو مرعوب کیے رکھا۔الحاج پیر حفیظ البرکات شاہ نے اس تحریک کی کامیابی کے لیے بے مثال مالی ایثار کا مظاہرہ کیا۔تحریک ختم نبوت کا سب سے نازک مرحلہ تب پیش آیا جب حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔آپ رات گئے ایک جلسہ سے واپس آرہے تھے کہ لنگر شریف کے بالکل نزدیک چھپے ہوئے قادیانیوں نے آپ پر سیدھے فائر کیے لیکن اللہ کریم نے آپ کو سلامت رکھا۔دیواروں اور دروازوں پر گولیوں کے واضح نشانات آج بھی قادیانیوں کی بزدلانہ حرکت کی گواہی دے رہے ہیں۔قریب تھا کہ حالات مزید کشیدہ ہو جاتے لیکن قائد تحریک ختم نبوت حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ نے شہریوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی۔ پھراس مسئلہ کو مولانا شاہ احمد نوارنی نے پارلیمنٹ میں لے جانے کا اعلان کیا۔اور ایک مرتبہ پھر قانونی رستہ اختیار کیا۔ 30جون 1974کو انہوں نے پارلیمنٹ قرارداد پیش کی جس میں قادیانیوں کے عقائد کے پیش نظر انکو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔اس تحریک پر بحث کے دوران اس بات کی اجازت دی گئی کہ ارکان پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ایک آزاد ریاست کے آزاد شہری ہونے کے ناطے قادیانیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنے کا مکمل مو قع فراہم کیا گیا۔13دن تک سوال وجواب،بحث و مباحثہ جرح وتنقید کا سلسلہ جاری رہا۔پاکستان کے اٹارنی جنرل یحیح بختیار نے قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر پر جرح کی اور سوال وجواب پر مشتمل کی گئی گفتگو ں پر مشتمل طویل سیشن ہوئے۔22اگست1974کو اس بحث کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک کمیٹی بنی جس کے معزز ارکان میں مولانا شاہ احمد نورانی،مفتی محمود،پروفیسر غفور احمد،چوہدری ظہور الہی،مسٹر غلام فاروق اور سردار مولا بخش سومرو اور وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اس کمیٹی کے رکن تھے۔7ستمبر1974کو پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے متفقہ طور پر انکو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے دستور کی دفعہ260اور دفعہ160میں ترمیم منظور کی۔26اپریل1984 اس وقت کی وفاقی حکومت نے امتناع قادیانیت ارڈی نینس جاری کیا۔جس میں انہیں اسلامی شعائر کا استعمال نہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ایک نئی دفعہ298کا تعزیرات پاکستان میں اضافہ کیا گیا جس کی رو سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور۔اپنی تبلیغ کے ذریعے مسلمانوں کی توہین کرنے کو قابل تعزید جرم قرار دیا گیا۔قادیانیوں نے اس ارڈی نینس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا۔15جولائی 1984 سے 12اگست1984تک اس کی سماعت بلا تعطل جاری رہی۔قادیانیوں کی۔پیٹیشن نے اس آرڈینینس کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔12اکتوبر1984کو وفاقی شرعی عدالت نے اس پٹیشن کو خارج کر دیا۔چیف جسٹس جسٹس فخر عالم نے فیصلہ تحریر کیا۔جبکہ جسٹس چوہدری محمد صدیق،جسٹس مولانا ملک غلام علی جسٹس مولاناعبدالقدوس قاسمی نے تائیدی دستخط کیے۔اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل کی گئی۔جسکو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھا کہ قادیانیوں کو مروجہ جمہوری اور قانونی طریقہ کار کے مطابق اقلیت قرار دیا گیا ہے۔نیز یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ قادیانی ملک میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔لہذا یہ قانو ن انسانی حقوق کے خلاف کے نہیں بلکہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔یہ فیصلہ جسٹس محمد افضل ضلحہ نے تحریر کیا۔جبکہ ڈاکٹرنسیم حسن شاہ،جسٹس شفیع الرحمن،جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور جسٹس تقی عثمانی نے تائید کی۔جبکہ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اور جسٹس مولانا تقی عثمانی نے الگ سے بھی فیصلہ تحریر کیا(SC-167…PLD1988)لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس رفیق تارڑ نے 1987میں، بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس امیر المک مینگل نے 1988 میں، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن نے 1992میں، جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے ہی جسٹس میاں نزیر اختر نے 1992میں قادیانیوں کے خلاف کیے جانے والے دستوری اقدامات کو قانون کے عین مطابق قرار دیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ کے ایک فل بینچ نے 1993میں الگ مفصل فیصلہ تحریر کیا جو کہ اس ضمن میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس بینچ میں جسٹس عبدالقدیر چوہدری جسٹس ولی محمد خان،جسٹس محمد افضل لون،اور جسٹس سلیم اختر شامل تھے۔(1993-S.C.M.R1718) اسمیں فل بینچ نے قرار دیا کہ ایک اقلیت کی جانب سے مسلمانوں کے شعائر کا استعمال فتنہ و فساد کا موجب بن سکتا ہے،ملک میں امن و امان کامسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور لوگوں کی جان و مال خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اس لیے انسانی حقوق کے تحفظ اور دستور پاکستان کے بنیادی نکات عمل کرنے کی خاطر قادیانیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔1988 میں قادیانیوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشن کی طرف رجوع کیا اور درخواست کی کہ پاکستان میں انکے انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں لہذا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں حکومت پاکستان نے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کو جینوا میں اس کمشن کے اجلاس میں پاکستانی موقف بیان کرنے کے لیے بھیجا۔انہوں نے قانون،آئین اور بین الاقوامی قوانیں کی روشنی میں قادیانیوں کے الزامات کا جواب دیا۔ اس قانونی جنگ کا نتیجہ 30اگست1988کو سامنے آیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشن نے بھی قادیانیوں کی درخواست کومسترد کر دیا اور حکومت پاکستان کے موقف کو درست تسلیم کیا۔لیکن آج کی پاکستانی حکومت کا کرادر اس حوالے سے معذرت خوانہ کیوں ہے۔ایسے مسائل جن پر قرآن و سنت کا حکم واضح اور امت کا اجماع اور ملک کی منتخب پارلیمنٹ کا اتفاق اور اعلی عدالتوں کے فیصلے اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں تو حکومت پاکستان کا موجودہ رویہ ہم سب کے لیے پریشان کن ہے۔اس معاملے پر ایک مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
ختم نبوت کا مسئلہ محض دینی،قانونی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ 22کروڑمسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔انہوں نے صدر ٹرمپ کے پاس جا کر پاکستان کی بدخواہی کر کے اپنے منہ پر کالک ملی ہے اور خود ہی اس مسئلے کو بین الاقوامی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔یہ تو ممکن نہیں کہ آپ پاکستان کا کھائیں،پاکستان میں سہولیات سے لطف اندوز ہوں لیکن اپنے گندے کپڑے ٹرمپ کے سامنے جا کر دھوئیں کیا یہ بات قرینے انصاف ہے کہ 2لاکھ کی آبادی 22کڑوڑ لوگوں کو یرغمال بنا لے۔ان کے عقائد کا مذاق اڑائے اور پھر اپنی مظلومیت کا رونا بھی روئے۔حقیقت یہ ہے کہ قادیانی اس ملک کی اقلیت ہیں انکو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر اقیلیتوں کو حاصل ہیں۔یہ لوگ ملک میں کسی بھی جگہ ملازمت کر سکتے ہیں،جایئدادکی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔پاکستان کے کئی بڑے ادارے انکی ملکیت ہیں۔ان کو نا صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ یہ حساس اداروں میں اعلی منصاب تک پہنچ سکتے ہیں۔اگر یہ لوگ پاکستان کے قانون کا تحفظ حاصل کر رہے ہیں تومنطقی طور پر انکو ان فرائض کا بھی خیال رکھنا ہو گا جو آئین کے تحت پاکستانی قوم ان سے توقع کرتی ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ اس موضوع کو نصاب میں شامل کریں اور کچھ سکہ کتب مسئلأئ ختم نبوت ازشورش کاشمیری، حسام الحرمین از مام احمد رضا بریلوی، اور پیر مھر علی شاہ کی کتاب شمس الہدایت کا مطالعہ کریں تا کہ بعد میں کف افسوس نہ ملنا پڑے۔

Leave a reply