کیا ہم واقعی امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ طالبان کو بھیج رہے ہیں؟ایلون مسک

elon

امریکی کانگریس کے رکن ٹم برچیٹ نے کہا کہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ سے طالبان کو غیر ملکی امداد دینے کے بارے میں سوال کیا تھا جس پر وزیر خارجہ نے تسلیم کیا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے طالبان کو تقریباً 10 ملین ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے۔ لیکن برچیٹ کے مطابق، یہ اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ وہ نقد رقم ہے جو امریکہ کے مرکزی بینک سے افغانستان کے مرکزی بینک میں بھیجی جاتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لکھے گئے خط میں انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ نقد رقم افغانستان کے مرکزی بینک کو نیلام کی جاتی ہے، جس کے بعد ان رقموں کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس طریقے سے طالبان دہشت گردی کی مالی معاونت حاصل کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

ٹم برچیٹ نے 2023 میں ایک بل پیش کیا تھا جس میں امریکی محکمہ خارجہ کو طالبان کو مالی یا مادی امداد فراہم کرنے والے غیر ملکی ممالک کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس بل میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ امریکی حکومت افغانستان کے مرکزی بینک پر طالبان کے اثر و رسوخ اور نقد امدادی پروگراموں کی رپورٹ پیش کرے۔ یہ بل امریکی ایوان نمائندگان سے متفقہ طور پر منظور ہو گیا تھا، مگر سینٹ میں اس بل کو مزید غور و بحث کے لیے پیش نہیں کیا جا سکا کیونکہ اس وقت کے اکثریتی رہنما چک شومر نے اس پر ووٹنگ نہیں ہونے دی۔

برچیٹ نے اعلان کیا کہ وہ اس بل کو آئندہ کانگریس میں دوبارہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور صدر ٹرمپ کی حمایت کی امید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "امریکہ کو اپنے دشمنوں کو بیرون ملک امداد نہیں دینی چاہیے۔” برچیٹ کا کہنا تھا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کو دہشت گردوں کو فنڈ کرنے کے لیے استعمال کرنا ایک بے وقوفانہ اقدام ہے۔ٹم برچیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نومبر 2024 میں ہونے والی انتخابی کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا کہ مشرقی ٹینسی کے لوگ وائٹ ہاؤس میں مضبوط قیادت کے منتظر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ امریکہ کو عالمی سطح پر مزید مضبوط بنایا جا سکے۔

ٹم برچیٹ کا خط امریکی سیاست میں طالبان کی امداد کے حوالے سے اہم سوالات اٹھاتا ہے اور امریکی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ برچیٹ کا موقف ہے کہ امریکی حکومت کو اپنے ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے استعمال کرنے کی بجائے امریکی مفادات کو مقدم رکھنا چاہیے۔ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔یہ خط امریکی سیاست میں غیر ملکی امداد کے بارے میں جاری بحث کو مزید شدت دے سکتا ہے، خاص طور پر جب طالبان جیسے دہشت گرد گروپوں کو امداد دینے کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہو رہے ہیں

https://x.com/elonmusk/status/1876436915479843239

ٹم کے اس خط پر دنیا کے معروف کاروباری شخصیت اور ٹیسلا و اسپیس ایکس کے سی ای او،ایلون مسک نے سنسنی خیز سوال اٹھایا ہے: "کیا ہم واقعی امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ طالبان کو بھیج رہے ہیں؟” ایلن مسک کا یہ سوال اس وقت منظر عام پر آیا جب افغانستان کے حوالے سے امریکی حکومت کی امداد اور امدادی فنڈز پر بات چیت ہو رہی تھی۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مختلف امدادی پروگرامز شروع کیے ہیں تاکہ انسانی بحران اور معاشی عدم استحکام سے نمٹا جا سکے۔ اس امداد میں غذائی اشیاء، ادویات، اور دیگر امدادی سامان شامل ہے، جس کا مقصد افغان عوام کی مدد کرنا ہے۔تاہم، بہت سے حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ امداد طالبان کی حکومت کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ طالبان براہ راست افغان حکومت پر قابض ہیں اور ان کی جانب سے اس امداد کا استعمال دہشت گردی کے لئے بھی ممکن ہے۔

ایلن مسک نے اپنی ٹویٹس اور عوامی بیانات میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ طالبان کے حوالے سے امداد فراہم کر رہا ہے تو کیا یہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ ایلن مسک کا یہ سوال امریکہ کے امدادی پروگرامز پر ایک اہم سوالیہ نشان ہے، جس نے عالمی سطح پر افغان بحران کی پیچیدگیوں کو اجاگر کیا ہے۔یہ مسئلہ مستقبل میں بھی عالمی سطح پر بحث کا موضوع بن سکتا ہے، اور اس پر مزید فیصلے اور اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا بہتر استعمال یقینی بنایا جا سکے۔

تبت میں زلزلہ، 53 افراد ہلاک، متعدد عمارتیں گر گئیں

پاکستان میں سکواش کے فروغ کے حوالے سے ایک بڑی خوشخبری

Comments are closed.