ارے صاحب قصور وار تو ہم بھی ہیں، ازقلم: غنی محمود قصوری

0
40

ارے صاحب قصور وار تو ہم بھی ہیں

ازقلم غنی محمود قصوری

بڑے دنوں بعد میرے بچپن کے ایک دوست کی کال آئی مجھے اس کی کال آنے کی بہت بہت خوشی ہوئی کیونکہ وہ ایک انتہائی نفیس اور درد دل رکھنے والا شحض ہے سلام دعا کے بعد دریافتگی حال احوال کہنے لگا یار نئی نسل تو بلکل برباد ہو رہی ہےکوئی حالات ہی نہیں رہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے پتہ نہیں کیا ہو گا-

میں نے پوچھا کیسے اور کیا ہوا ہے ؟-

کہنے لگا ہر چوک چوراہے میں مانگنے والی عورتیں موجود ہیں جو لوگوں سے پیسے مانگتی ہیں اور ساتھ موقع ملنے پہ نوجوانوں کی ہوس کی تسکین بھی بنتی ہیں میں نےاسکی بات سنتے ہی کہاارے صاحب قصور وار تو ہم بھی ہیں ہماری ہی کمیوں کوتاہیوں کےباعث وہ عورتیں آج سڑک پہ ہیں

وہ تعجب سے کہنے لگا یار ہمارا کیا قصور؟ میں نے کہا جناب ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اور ہمیں اپنی مرضی کا رخ ہی نظر آتا ہے
میں اسے بتانے لگا کہ مجھے معلوم ہے ان عورتوں میں بہت سی جوان خوبرو دوشیزائیں بھی ہیں اور بوڑھی بھی کچھ تو انتہائی کھاتے پیتے گھرانے کی بھی لگتی ہیں مجھے یہ بھی معلوم ہیں کہ ان میں بیشتر مجبور عورتیں ہیں تو کچھ شارٹ کٹ مالی حصول کی خاطر بغیر محنت کئے بھیک مانگنے والیاں بھی-

مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ان میں سے چند ایک اپنے حسن و جمال کو ڈھال بنا کر جسم فروشی کرتی ہونگی مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے باقاعدہ گینگ ہونگے اور ضلعی و تحصیل انتظامیہ سے اوپر تک ان کی پہنچ ہو گی سب باتیں درست ہیں مگر کیا ہم نے کبھی ان سے ان کے دکھ درد جانے؟ کیا ہم نے کبھی کوئی کوشش کی ان کی داستان سننے کی کہ بی بی،بہن،محترمہ آپ کو کیا مسئلہ ہے ؟ گھر میں کوئی کمانے والا مرد نہیں یا پھر مالی حالات زیادہ برے ہوگئے کہ آپ کو اپنا گھر چھوڑ کر سڑک پہ آنا پڑا؟ مختلف سوالات ہیں جن کے جوابات بھی مختلف ہونگے-

میں دوبارہ اس سے گویا ہوا کہ یار دیکھو جس طرح یہ کئی طرز کی ہیں اسی طرح ہم بھی کئی طرز کے ہیں کچھ ہم میں سے کھاتے پیتے گھرانوں سے ہیں تو گزر بسر واجبی والے ہیں کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ایسا تو نہیں کہ ان میں سے وہ عورتیں بھی ہو کہ جو رسم و رواج اور جہیز کی بھینٹ چڑھنے کے باعث بالوں میں چاندی لئے پھرتی سڑک پہ آ گئی ہو؟

کیا ایسا نہیں کہ بڑی بہن کی شادی ذات،پات،رسم و رواج کے باعث نا ہو سکی اور اس نے اسی دکھ میں خودکشی کر لی اب بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے کی خاطر یہ سڑک پہ ہے ؟

ہو سکتا ہے ان کا باپ،بھائی کماتا تو ہو مگر شدید مہنگائی کے باعث ان کے گھر کا گزارہ نا ہوتا ہو اور اسی محلے کے لوگ ان کو ایک کماؤ گھرانے سے جان کر اپنے صدقے خیرات محلے سے باہر کسی اور کو دینے لگ گئے ہو حالانکہ اسلام نے سب سے پہلا حق اپنوں و محلہ داروں کا رکھا ہے-

یہ بھی ہو سکتا ہے کسی دل پھینک عاشق نے سبز باغ دکھائے ہو اور وہ نکاح کی خاطر اس کیساتھ بھاگ کھڑی ہوئی ہو اور اس کی ہوس کی تسکین بن کر اب ٹشو پیپر کی طرح ناکارہ ہو گئی ہے اور گھر واپس اس لئے نہیں جا رہی کہ اب اس کے ورثاء اسے قتل کر دیں گے
کہیں ایسا تو نہیں کسی سنگدل باپ نے اس کی ماں کو بیٹا پیدا نا کرنے پہ چھوڑ دیا ہو اور اب یہ اپنی بوڑھی بے سہارہ ماں کی سانسوں کو بحال رکھنے کی خاطر بھیک مانگ رہی ہو کیونکہ اکثر و بیشتر مردوں کو ہی محنت مشقت کے کاموں پہ رکھا جاتا ہے تاکہ اجرت کے باعث کام پورا ملے-

خیر اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں تو ہم دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یہ عورتیں آج سڑک پہ بھیک مانگنے کیساتھ خدانخواستہ کسی کی جنسی ہوس کا نشانہ پیسوں کے عیوض بن رہی ہیں تو واللہ ہم بھی مجرم ہیں-

ہمیں چائیے اپنے صدقے خیرات دیتے وقت ان کمزور گھرانوں کو دیکھیں کیونکہ جس طرح مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینا ثواب ہے بلکل اسی طرح بھوکے کو کھانا کھلانا اس کی ضروریات زندگی پوری کرنا بھی ثواب ہے-

ہم رشتہ طے کرتے وقت اگر جہیز کو بائیکاٹ کریں اور خوبصورتی کی بجائے خوب سیرتی ،مال کی بجائے اعمال کو ترجیح دیں تو اللہ گواہ کتنے ہی غریب گھرانوں کی سڑک پہ مانگتی عفت مآب عورتیں آج اپنے گھروں میں ہوتیں بسا اوقات ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ جی یہ تو صحت مند ہیں کما سکتی ہیں ان کو خیرات کیوں دیں؟ تو ارشاد باری تعالی بھی سن لیں-

انہیں ہدایت پر ﻻ کھڑا کرنا تیرے ذمہ نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالیٰ دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تم جو بھلی چیز اللہ کی راه میں دو گے اس کا فائده خود پاؤ گے ، تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب کے لئے ہی خرچ کرنا چاہئے تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا، اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا، سورة البقرة 272

اس آیت کی رو سے ہم صدقہ دیں ساتھ ان کو دعوت دیں اور حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ ان کی بحالی کے زیادہ سے زیادہ مراکز بنائے جائیں جہاں ان کو حق حلال کمانے کی ٹریننگ دے کر ہنر مند بنایا جائے تو ان شاءاللہ کبھی نا کبھی یہ سڑکوں کی بجائے ایک کماؤ فرد بن کر ملک و ملت کا بوجھ بانٹ لیں گیں-

Leave a reply