عارف نقوی کی کمپنی کو سابق حکومت میں بغیرمعاہدےگیس دینے کا انکشاف جبکہ انتظامیہ بارہا پوچھنےکےباوجود کسی معاہدے کا ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہی.

عمران خان کی حکومت میں مالی سال دوہزار اکیس،بائیس کی آڈٹ رپورٹ میں مالی بےضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ تحریک انصاف کی مبینہ سیاسی فنڈنگ کرنے والےعارف نقوی کی کمپنی کےالیکٹرک کو3 سال میں بغیر کسی معاہدے کے 174ارب روپے کی آر ایل این جی فراہم کردی گئی۔

عمران خان کے دور میں وزیر اعظم کے قریبی ساتھی اور تحریک انصاف کے مبینہ فنانسر عارف نقوی کے وارے نیارے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ کسی بھی معاہدے کے بغیر ہی عارف نقوی کی کمپنی کے الیکٹرک کو 3 سال میں 173 ارب 74 کروڑ روپے کی آر ایل این جی سپلائی کی گئی۔ نجی ٹی وی کے مطابق: آڈٹ رپورٹ 2021-22 کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی شفافیت کا پردہ فاش ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کو بغیر کسی معاہدے کے 1 لاکھ کیوبک فٹ گیس سوئی سدرن کمپنی کے ذریعے فراہم کی گئی۔ انتظامیہ بارہا پوچھنے کے باوجود کسی معاہدے کا ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہی۔ آڈٹ رپورٹ میں گیس کمپنیوں کی اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں بھی سامنے آگئیں۔

سوئی سدرن اورسوئی نادرن میں گیس چوری اور لیکیج کی مد میں 36ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ یہ مالی خسارہ صارفین سے زائد بل وصول کرکے پورا کیا گیا جبکہ نادہنگان سے گیس کمپنیاں 58 ارب روپے کی ریکوری میں ناکام بھی رہیں۔

عارف نقوی کون ہے؟
واضح رہے کہ اس سے قبل فنانش ٹائمز میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کے مطابق: ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی نے آکسفورڈ شائر میں ایک نجی کرکٹ ایونٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کیلئے فنڈز جمع کئے تھے اور ان کے لئے خلیجی ملک کی ایک شخصیت سے بھی فنڈز حاصل کئے۔

اس مضمون میں سابق وزیراعظم عمران خان پر بھی توجہ مرکوز کی گئی تھی جنہوں نے پہلی بار عارف نقوی کی آف شور کمپنی ووٹون کرکٹ لمیٹیڈ سے عطیات لینے کا اعتراف کیا۔ عارف نقوی کے عالمی سطح پر عروج وزوال کے کئی پہلووں کے بارے میں دنیا لاعلم ہے۔ نقوی کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں زیر تعلیم رہے جس کے بعد وہ 14 ارب ڈالر کی مالیت کے ابراج گروپ کا قیام عمل میں لائے، وہ فنانشل ٹائمز کے آرٹیکل سے قبل بھی لندن میں امریکی حکومت کی درخواست پر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ہاتھوں اپریل 2019 میں گرفتاری کے وقت بھی منفی خبروں کا مرکز رہے ہیں۔

عارف نقوی ارب پتی اور عالمی سطح پر پاکستانی تجارت کا چہرہ سمجھے جانے والی شخصیت کے بعد اب معاشی طر پر دوستوں پر انحصار کررہے ہیں تاہم اس بارے میں زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہے، ایک ایسی صورتحال میں کہ جب وہ امریکا کی جانب سے ملک بدر کئے جانے کے کیس کیخلاف برطانوی عدالتوں میں کیس لڑرہے ہیں جبکہ اسی دوران وہ عالمی سطح پر میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ان کے دوستوں کے ایک گروپ کی جانب سے ان کی ضمانت کیلئے 15 ملین پائونڈ کی ادائیگی کے بعد وہ گزشتہ 4 برس سے لندن میں اپنے گھر میں نظر بند ہیں جبکہ ان کی ضمانت بھی انتہائی سخت شرائط پر دی گئی۔

عارف نقوی نے سنہ 2002 میں ابراج ایکویٹی فرم قائم کی۔عارف نقوی کی کمپنی قیام کے پندرہ برسوں کے اندر دنیا کی سب بڑی ایکو یٹی فرم بن چکی تھی اور دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے ان کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔ان کی منیجمنٹ کے زیر اہتمام اثاثوں کی مالیت 14 ارب امریکی ڈالر تھی جبکہ بوگوٹا سے لیکر استنبول، نیروبی اور جکارتہ تک اس کے 25 دفاتر میں 400 کے قریب ملازمین کام کرتے تھے جبکہ کمپنی کا ہیڈکوارٹرز دبئی میں تھا۔ ابراج گروپ کا زوال اس وقت شروع ہوا جب کمپنی کے اہم سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ اچانک سے فرم سے نکال لیا جبکہ ریگولیٹری مسائل، غیر مستحکم سیاسی صورتحال نے بھی کردار ادا کیا حالاں کہ سابق وزراء اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کی جانب سے ابراج گروپ کی بیلنس شیٹ میں آنے والا خلا کو پر کرنے کیلئے تعاون بھی کیا تھا۔

عالمی سطح پر نام کمانے کے باجود نقوی کبھی بھی پاکستان کی مدد اور بیرون ملک اس کا تشخص برقرار رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 2005 میں زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے ان کی جدوجہد پر اس وقت کے صدر مشرف نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا تھا. جبکہ ملالہ یوسفزئی اور دو مزید لڑکیاں جو ٹی ٹی پی کے حملے میں زخمی ہوگئی تھیں کو برطانیہ متنقل کرنے اور گریجویشن تک ان کی تعلیم کا خرچہ بھی عارف نقوی نے ہی اٹھایا تھا. امن فاونڈیشن کا قیام بھی عارف نقوی ہی کی مرہون منت ہوا جنہوں نے 2008 سے لیکر 2018 تک 35 ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جو کراچی میں ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔ 2022 میں عارف نقوی کی خرابی قسمت کے بعد فاونڈیشن کو بند کرنا پڑا تاہم سندھ حکومت نے اس کا انتظام سنبھال لیا۔ انہوں نے 2009 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد مستقبالی فاونڈیشن قائم کی جس نے 1900 یتیم بچوں کی دیکھ بال سنھالی۔

انہوں نے دبئی میں مقصود نقوی کمیونٹی مسجد کے قیام کیلئے بھی لاکھوں ڈالرز خرچ کئے۔ اسی طرح برطانیہ میں ہیرو مسجد اور مسعود کمیونٹی سینٹر کے قیام کیلئے بھی انہوں نے لاکھوں ڈالرز خرچ کئے۔ ان کی خدمات پر انہیں کئی عالمی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے جن میں اوسلو بزنس فار پیس ایوارڈ شامل ہے۔

Shares: