آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس ، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے کیا ہوا مکالمہ
آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کیس ، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے کیا ہوا مکالمہ
تفصیلات کے مطابق : سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں جنرل باجوہ کی طرف سے فروغ نسیم پیش ہوگئے ہیں جنہوں نے اپنا وکالت نامہ بھی جمع کرادیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کررہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی ان کو تسلیم کیا گیا ہے اور درستگی کی گئی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔
عدالت نے کہا کہ ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پرہی سن رہے ہیں،کل کیے گئے اقدامات سے متعلق بتایاجائے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ توسیع سے متعلق قانون نہ ہونے کا تاثرغلط ہے۔چیف جسٹس نے کہا کل آپ نے جو دستاویز دی تھیں اس پر گیارہ ارکان نے ہاں کی ہوئی تھی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کل بھی میں نے بتایا کہ توسیع کے نوٹیفکیشن پرمتعدد وزراکے جواب کا انتظار تھا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہاگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔عدالت نے کہا کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہمیں دکھائیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کہاں لکھا ہے کہ اگر کابینہ ارکان جواب نہ دیں تو اسے ہاں تصور کیاجائے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا جی ہاں آرٹیکل انیس اے کے مطابق ہاں تصور ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انیس اے تب لاگو ہوتا ہے جب مخصوص وقت متعین کیاگیاہو۔ اٹارنی نے کہا ان کے انتظارکے آگے ہاں لکھا ہوا ہے۔ رول کے مطابق انتظار کا مطلب ہاں ہوتا ہے۔انتظار کتنے دن کا ہوسکتا ہے یہ بھی بتادیں۔
عدالت عظمیٰ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی گئی ، چیف جسٹس نےدوران سماعت ریمارکس دیئے کہ جو ترمیم آرمی رول میں کی۔وہ چیف آف آرمی سٹاف پرلاگو نہیں ، آرمی چیف کمانڈر ہیں،ایک الگ کیٹیگری ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل243میں تنخواہ، مراعات، تعیناتی ، مدت ملازمت کا ذکر ہے ، کیا چیف آف آرمی اسٹاف حاضر سرونٹ آرمی افسرہونا چاہیے، کیا کوئی ریٹائرڈافسربھی آرمی چیف بن سکتا ہ