19 جون؛ ارشد غازی کا یوم پیدائش

آغا نیاز مگسی
0
58
Arshd Ghazi

وہ خود سری ہے زباں تک سے التجا نہ ہوئی
کہ ہم سے رسم جہاں آج تک ادا نہ ہوئی

ارشد غازی کا وطن انبیہٹہ پیرزادگان سہارنپور یوپی ہے۔پیدائش اور تمام ممبئ میں 19 جون 1958 کو ہوئی ۔نجیب الطرفین ارشد غازی کی ننھیال دیوبند اور دادھیال انبیہٹہ کی ہے ۔مولانا انصاری مدار المہام،وزیراعظم ریاست گوالیار سے وہ پانچویں پشت میں ہیں ۔بہت سلسلہ روزگار طویل عرصہ ملک سے باہر رہے۔دار العلوم دیوبند،مظاہر العلوم سہارنپور اور ندوتہ العلماء کی تاسیس میں ان کے اجداد بنیادی اراکین بلکہ اصل محرک رہے انگریزوں کے خلاف ان کے اسلاف نے دو بار جہاد کے فتوی پر دستخط کئے ۔ان کے والد مولانا حامد الانصاری غازی جو کتاب ‘ اسلام کا نظام حکومت ‘کے مولف ہیں ۔والدہ مشہور زمانہ مصنفہ ہاجرہ نازلی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ارشد غازی کی تحریروں اور اشعار میں اس فکر کی جھلک ملتی ہے۔

ارشد غازی تعلیمی و ثقافتی ادارے اکیڈمی آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز(اساس )کے چیئرمین ہیں جو انہوں نے ستمبر 1999 میں اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر علی گڑھ میں قائم کیا ۔اساس ایک غیر سیاسی، غیرجانبدار علمی، تحقیقی و تعلیمی ادارہ ہے جس کا تعلیمی پروگرام بر صغیر میں مدرسہ جدید کاری سے متعلق اس کی عالمی تحریک کا حصہ ہے ۔

: ارشد غازی کا بنیادی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مدارس اسلامیہ کے لئے سو سے زیادہ جدید درسی کتابیں تیار کیں۔جس میں ملک کے نامی گرامی ماہر تعلیم کا انہیں تعاون حاصل رہا ۔انہوں نے متعدد غیر ملکی اسفارکئے،تین سال قبل حسن روحانی صدر ایران کی دعوت پر ایران گئے جہاں ان کے 12 لیکچر وحدت اسلامی اور ایران و ہند تعلقات پر ہوئے۔

ان کا شعری مجموعہ ‘نصاب آگہی’ کے نام سے 2015 میں منظر عام پر آیا۔گزشتہ ماہ دوسری کتاب ‘” صحیفہ فکر ” کا اجراء عمل میں آیا جو 360 مطالعوں پر مشتمل ہے ۔شاعری میں باضابطہ ان کا کوئی استاد نہیں رہا۔البتہ بی اے میں اردو کی ایک سندھی پروفیسر مادھوری اکثر ان کے شعر درست کردیا کرتی تھیں ۔ دیگر کتابوں میں افکار سید حامد، حیات وخدمات مولانا حامد الانصاری غازی و مولانا عبداللہ انصاری و مولانا منصور انصاری اور علمائے ہند ہیں۔

فی الحال وہ مع اہل وعیال علی گڑھ میں مقیم ہیں
ارشد غازی کا مشہور مقولہ ہے۔۔
محبت ! خیال رکھنے کا نام ہے

معروف شاعر ،ماہر تعلیم اور اساس کے چئیرمین ارشد غازی کے یوم ولادت پر ان کا کلام بطور خراج عقیدت پیش خدمت ہے

: حصار کون و مکاں سے نکلوں تو آگہی کا نصاب لکھوں
قلم پہ لفظوں کی بندشیں ہیں وگرنہ اس پر کتاب لکھوں
___
ادب میں شجرہ غالب کی یاد گار ہوں میں
وہ کاروان سخن تھا پس غبار ہوں میں
فصیل شہر میں شہرت ہے کج کلاہی کی
کہ تخت مملکت دل کا تاجدار ہوں میں
___
وہ خود سری ہے زباں تک سے التجا نہ ہوئی
کہ ہم سے رسم جہاں آج تک ادا نہ ہوئی
__
نہیں اوصاف کچھ رہبر کے لیکن
کئے ہیں کام پیغمبر کے لیکن
___
ُفصیل شہر سے باہر مکان ہے میرا
کہیں نہ ٹھہرو مرے گھر کا جب ارادہ کرو
_
مجھ سے یوں کہتا ہوا گزرا ہے دیوانہ کوئی
کیوں نہیں لکھوالیا قسمت میں ویرانہ کوئی
__
آگہی کے شوق میں دیکھا نصاب آگہی
اب میری نس نس کو ڈستا ہے عذاب آگہی
یا مجھے دیوانہ کر یا ایک چلمن اور ڈال
کوئی گستاخی نہ کر دے اضطراب آگہی
__
سحر ملی نہ ملی رات سے نکل آئے
خدا کا شکر غم ذات سے نکل آئے
_
آگیا ان کا پھر خیال ہمیں
اے غم عشق تو سنبھال ہمیں
بے خودی میں یہ ہوش ہی نہ رہا
کسی سے کرنا تھا عرض حال ہمیں

Leave a reply