لاہور:کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے کیس میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے۔ کیس کی سماعت جاری ہے ارشد شریف کی والدہ نے بھئ سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے ۔ مبینہ اطلاعات کے مطابق ارشد شریف قتل کیس میں انکی والدہ کی جانب سے دی گئی درخواست انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے دباو میں آ کر دی
رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے قتل کو سیاسی رنگ دینے کے حوالے سے بہت سی چیزیں سامنے آئی ہیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت کی طرف سے لیا جانے والا سوموٹوایکشن ایک سیاسی جماعت کے دباو کی وجہ سے ہے ،حالانکہ عدالت کوسوموٹو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا ، اس حال میں کہ حکومت کی طرف سے پہلے ہی ایک جے آئی ٹی کام کرہی ہے،
ارشد شریف قتل کیس کا افسوسناک واقعہ 23/24 اکتوبر 2022 کو کینیا میں پیش آیا۔ اس واقعہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا شروع کردیا تھا ،، جس کے نتیجے میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم تشکیل دی گئی جس نے واقعہ کے رونما ہونے کے بعد صرف 7 ہفتوں کے اندر روپورٹ جمع کرا دی
حکومت پاکستان نے مناسب احترام اور برق رفتاری کے ساتھ ارشد شریف کی لاش کی منتقلی اور تدفین میں سہولت فراہم کی۔اورپھرچند دنوں میں جوڈیشل کمیشن آف انکوائری کی تشکیل کا اعلان کیا۔جہاں ایک طرف حکومت کام کررہی ہے وہاں دوسری طرف سرپم کورٹ نے سوموٹو لیا اور دو دن سے سماعت جاری ہے عدالت نے کچھ اقدامات کا حکم دیا ہے جن کی فوری تعمیل کی گئی ہے علاقائی دائرہ اختیار کی قانونی خامیوں سے قطع نظر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ واقعہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بھئ بن چکی ہے۔حکومت مشکلات کے باوجود کیس کو حل کرنے میں مخلص ہے۔ تاہم عمران خان نے ایک غمزدہ ماں کے جذبات اور دکھ کو اپنے سیاسی حملے کو آگے بڑھانے اور اپنی انا کی تسکین کے لیے ارشد شریف کے قتل کواستعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس عمل میں حکومت پاکستان کی کوششوں، طریقہ کار کے قانون اور کیس کے حقائق کے ساتھ ساتھ ایک ممکنہ نتیجہ یہ سب کچھ عمران خان کے کچھ پاپولسٹ کی انا کی قربان گاہ پر قربان ہونے کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ارشد شریف کے قتل کے واقعہ پر نوٹس لیتے ہوئے درخواست کی سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کی گئی جو زیادہ تر افواہوں پر مبنی ہے، اور قانونی لحاظ سے اس کے کوئی ثبوت نہین ہین ۔بظاہر، ایک سیاسی جماعت وزیر آباد کیس میں وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو وہ نہیں کر سکی اور بظاہر اس عمل میں ارشد شریف کے قتل کو انجام تک پہنچانے کے لیے معروضی تحقیقات سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
سابق آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی سی، اور آئی ایس پی آر کے ساتھ ساتھ سی ڈی وی کے دیگر افسران کی نامزدگی، بغیر کسی ثبوت کے، اداروں اور اس کے نتیجے میں خود ملک کو کمزور کرنے کی انتہائی بدنیتی پر مبنی مہم کا تسلسل ہے۔ ایک سیاسی جماعت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ریاست اور اس کے اداروں بشمول عدلیہ کی ساکھ کو مجروح کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔یہ بھی ایک قابل فکر بات ہے کہ ایف آئی آر میں ملزمان کون ہیں اس کے باوجود تفتیش کے طریقہ کار کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جو کہ درج ذیل ہے:-
FIR CrPC 154 کے تحت شروع کی گئی ہے۔ اس نے فوری کیس میں قانون کو حرکت میں لایا ہے اور ثانوی ایف آئی آر میں قانونی رکاوٹ ہے۔تفتیشی افسر کے تحت تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ ارشد شریف کی والدہ دیگر گواہوں کے ساتھ سی آر پی سی 161 کے تحت تفتیشی افسر کو اپنے بیانات دے سکتی ہیں اور دیں گی۔ اس کے بعد قانون کے ذریعہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ملزمین کو شامل کرے۔جو لوگ ارشد شریف کے قاتلوں کا پتہ لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں سزا دینا چاہتے ہیں وہ تحقیقات میں مدد کریں گے، جبکہ جو لوگ اس معاملے پر سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ اس پر سیاست کرکے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ میڈیا کے ذرایعے ٰایسے حقائق توڑ مروڑکرپیش کیے جائیں گے کہ جن سے اس کیس کے قانونی پہلووں پر اثرپڑے گا، ۔ بلکہ یہ خطرناک ثابت ہو گا جو عام طور پر قیاس آرائیوں/افواہوں سے رہنمائی کے لیے تحقیقات/شواہد سے چلتا ہے۔ اگر تحقیقات اس سیاسی جماعت کے سیاسی تھیٹروں اور اس پر پیدا ہونے والے دباؤ کی وجہ سے سامنے آئیں تو یہ ایک نظیر بن جائے گی اور ہمارے عدالتی نظام کا مذاق اڑے گا۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مقصد بظاہر آسان ہے کہ تفتیش کے عمل اور ہمارے عدالتی نظام کو اتنا متنازعہ بنایا جائے کہ عوام بڑے پیمانے پر دونوں سے غیر مطمئن ہو جائیں اور عمران خان کی کی پالیسی سے اتفاق کریں۔ فوری کیس میں ہائی پاورڈ جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے آزادانہ قتل کیس کی تحقیقات کرنی ہین ۔ دریں اثناء ارشد شریف کے آلات کی فرانزک جاری ہے اور اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسے آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے اور اسے ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اس کی میڈیا بریگیڈ کے غیر ضروری اثر و رسوخ سے بچایا جائے۔ اگرسپریم کورٹ کے حکم پر نامزد لوگوں کےخلاف تحقیقات کی اجازت دی جائے تو پھر اس کیس کو سیاسی فوائد کی خاطراستعمال کرنے والے اس سے سیاسی فائدہ اتھائیں گے، یہ ارشدشریف کے ساتھ خیرخواہی نہیں بلکہ اس کے قتل کوسیاسی رنگ دیا جائےگا جو کسی بھی طرح درست نہیں ، اس لیے سپریم کورٹ اس کیس کوکسی سیاسی جماعت کےدباومیں آکراس انداز سے تفتیش نہ کرے