عمران خان جمہوریت کے دعویدار ہیں۔ اور جمہوریت پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ اسی لیے تو الیکشنز کا رونا رو رہے ہیں۔ کہ ہمیں یہ امپورٹڈ حکومت نا منظور ہے۔ ایکشنز کروائے جائیں اور جمہوری طریقے سے عوام جسے منتخب کرے ،اسے ہی حکومت ملنی چاہیے۔
مگر جمہوریت ، جمہوریت کا راگ الاپنے والے عمران خان اور ان کے حامی آزادی اظہار اور پریس کی آزادی جیسی جمہوری اقدار کو ماننے کو تیار ہی نہیں۔ جو عمران خان کے حق میں بولے وہ صحافی کہلائے اور جس نے زرا سی بھی عمران خان پر تنقید کر دی تو صاحب! وہ لفافی ہوتا ہے۔
آج کل عمران خان کے حامی ٹوئیٹر پر سیئنر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان کے خلاف غداری اور لفافی کے ٹرینڈز چلا رہے ہیں۔میں بھی مبشر لقمان کے تجزیوں اور تبصروں پر اختلاف رائے رکھتا ہوں۔ مگر اختلاف رائے کا مطلب گالم گلوچ نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مبشر لقمان یا کسی اور صحافی کی بات اچھی نہیں لگ رہی تو نہ سنیں یا اختلاف کریں۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اور جمہوریت سب کو اظہار رائے کی آزادی تو ضرور دیتی ہے۔ مگر کسی شہری کی رائے پر اختلاف کی بجائے گالم گلوچ کی ہرگز نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں عمران خان یو ٹرن لیتے رہے ہیں۔ عمران خان کے دور میں ان کے وزرا نے دل کھول کر کرپشن بھی کی ہے۔ مبشر لقمان بھی یہی سب چیزیں بتا رہے ہیں۔ بلکہ ثبوت بھی دیکھا رہے ہیں۔فیصل واوڈا کی غیر ملکی شہریت ہو یا خسرو برادران کی کرپشن ، توشہ خانہ یا سابق وزیر اعلی عثمان بزدار گروپ کی کرپشن ، مبشر لقمان ان سب معاملات پر تجزیے اپنے یو ٹیوب چینل پر کر رہے ہیں۔ اور ثبوت بھی دے رہے۔
اگر ثبوت جھوٹے ہیں تو بھیا! کہو کہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ اصل بات یہ ہے۔ اور ثبوت جھوٹے ثابت کرو۔ معاملہ عدالت لے کر جاؤ۔ مگر یہ تو جھوٹا پن اور کم ظرفی ہے،کہ اپنے سوشل میڈیا کو یہ کہہ کر ٹرینڈز پر لگا دیا جائے کہ "ارسلان بیٹا! غداری سے لنک کر دو”۔ ٹوئیٹر مبشر لقمان کے خلاف ٹوئیٹس سے بھرا پڑا ہے ۔
مگر مبشر لقمان بولے جا رہا ہے۔ رکنے کا نام تک نہیں لے رہا۔”ارسلان بیٹا مبشر لقمان ہاتھ سے نکل رہا ہے، تم غداری سے لنک نہیں کر پارہے”۔ کہنے کی بجائے مبشر لقمان کو ملک پاکستان نے جو اظہار رائے کی آزادی جیسا حق دیا ہے،اسے قبول کیجیے۔