علیزے فرام لَمز کہتی ہے کہ آرٹ کو بَین کرنا انتہائی بری بات ہے اور آزادی اظہار کی نفی ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ آرٹ کے مخالف دقیانوسی مولوی لوگوں کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان کے عقائد یا اقدار ایک آرٹ فلم سے خطرے میں پڑتے ہیں۔ علیزے فرام لَمز یہ بھی کہتی ہے کہ جس نے آرٹ کا جو نمونہ دیکھنا ہو وہ اس کی مرضی ہونی چاہیے، کسی فرد یا ریاست کو پابندی لگانے کا کوئی حق نہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ لَمز والی علیزے کی یہ روشن خیالی سے بھرپور باتیں جناب بارُود خان نے سوشل میڈیا پر سُن لی ہیں۔ اتفاق سے وہ ایک ریاست مخالف اور عسکریت پسند گروہ کے میڈیا مینیجر بھی ہیں۔ ان کی پراپیگنڈا ویڈیوز گروہ کے لیے نئے رنگرُوٹ لانے کے لیے مشہور ہیں۔ لیکن حکومت سے وہ نالاں ہیں کہ سوشل میڈیا پر اُن کی خواہ مخواہ سرکوبی کرتی رہتی ہے۔ اب انہوں نے علیزے فرام لَمز کی باتوں سے انسپائر ہو کے اپنی بارودی ویڈیوز کو دوبارہ ریلیز کرنے کا سوچا ہے اور اس بار وہ اسے “آرٹ” کہہ کر مارکیٹ میں لائیں گے تاکہ علیزے اور اس کے تمام فرینڈز ممکنہ پابندیاں لگنے پر میدان میں بارود خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ آخر پراپیگنڈا “آرٹ” سے کسی کے عقائد یا اقدار خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟ ریاست کو کیا لگے، جس نے بھی “آرٹ” کا جو نمونہ دیکھنا ہے وہ دیکھے!

بارود خان کے ساتھ قصور کے رہائشی مونی بَٹ نے بھی علیزے فرام لَمز کی باتوں سے انسپائریشن پکڑ لی ہے۔ وہ بچوں کے پورن کے دھندے میں ہے اور حکومت کی سینسر شپ سے پریشان ہے۔ اب اس نے سوچا ہے کہ اپنی فوٹیج کو اینیمیٹ کروا کے اسے “آرٹ” کہہ کے مارکیٹ میں پھینکنے کی تیاری کرے۔

جس طرح فیمنسٹ بہنوں نے ٹرانس حقوق کی وکالت کرتے کرتے معاملات یہاں تک پہنچا دیے ہیں کہ اب ناکام مرد اتھلیٹ آپریشن سے عورت بن کے عورتوں کو ہی گیمز میں ہرانے کی بنیاد ڈال چکے ہیں، اسی برح بارود خان اور مونی بٹ بھی علیزے فرام لَمز اور اس کے لبرل دوستوں کو انہی کی گیم میں گُھس کر بِیٹ کرنے والے ہیں۔

پس تحریر: دنیا کا ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ تحریر و تصویر سے لے کر آڈیو ویڈیو تک کوئی بھی میڈیئم ہو، وہ سماج پر اثر انداز ہونے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر زندہ سماج میڈیا پر اپنے اقدار کے حساب سے پابندیاں عائد کرتا ہے۔ جیسے دہشت گردی یا چائلڈ پورن معاشرے کا ناسور ہیں ویسے ہی یہ ل-ج-ب-ٹ بھی سماج کے لیے تباہی ہے۔ اور اس کی تشہیر و حوصلہ افزائی کرتے مواد پر پابندی لگانا اسلامی نہیں بلکہ بنیادی منطق کا تقاضا ہے کیونکہ اسلام سے بڑھ کر یہ انسانیت کی بقاء کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اس کے حامی بس یہ فرض کر لیں کہ اگر ان کی والدہ یا والد اس عادت کا شکار ہوتے تو وہ اس آزادی کا پرچار کرتے آج دنیا میں موجود ہی نہ ہوتے۔

Shares: