پروفیسر احسن اقبال اور آرٹیکل 257 تحریر: شاہ زیب


گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ کےراہنما شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال صاحب اور راجہ فاروق حیدر نے آزاد کشمیر میں الیکشن ہارنے کے بعد پریس کانفرنس کی اور آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج کو بڑی شد و مد کے ساتھ مسترد کیا۔
الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے لیکن اِس کا کوئی ٹھوس ثبوت دکھانے سے قاصر رہے۔ خیر یہ تو پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ ہونے والے ہر الیکشن کو اپوزیشن دھاندلی زدہ قرار دیتی اور آئیندہ الیکشن تک اِسی بیانیہ کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔
لیکن میں یہاں خاصیت کا ساتھ ذکر پروفیسر احسن اقبال صاحب کے بیان کا کرنا چاہتا ہوں۔
احسن اقبال نے ویراعظم عمران خان کے اُس بیان پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اُسے پاکستان کے بنیادی نظریے اور آئین پرحملہ قرار دیا، جس میں عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ ہم آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کروائیں گے اور کشمیریوں کو اس بات کا حق دیں گے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔
احسن اقبال صاحب کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے اس بیان میں آئین کی بڑی خلاف ورزی اور بنیادِ پاکستان کے خلاف بیان دیا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود احسن اقبال کو شائد آئین کا مکمل طور پر ادراک ہی نہی۔ یوں تو وہ ایک لمبے عرصے سے قانون ساز اسمبلی کے میمبر بنتے چلے آ رہے ہیں اور کسی کالج میں لیکچرار ہونے کے دعویدار ہیں لیکن شائد اتنی مصروفیت کے باعث وہ آئینِ پاکستان کا مطالعہ نہ کر سکے۔ آییے میں آپ کو آئین کی آرٹیکل 257 کی وہ دفعہ دکھاؤں جو معاملہِ جموں و کشمیر پر تفصیلی ظاہر کرتا ہے:
“ دفعہ257 کہتی ہے کہ جب ریاست جموں اور کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے تو پھر پاکستان اور ریاست کے مابین تعلقات کا فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔”
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جب خود کو پروفیسر اور سینئر سیاستدان کہنے والے احسن اقبال صاحب صاحب علم ہیں یا ۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب نے جو بیان دیا وہ بیعینہٖ آئین کے آرٹیکل 257 کی اس دفعہ کا عکاس ہے جبکہ احسن اقبال صاحب کا بیان نہ صرف محض سیاسی بیان بازی بلکہ بنیادِ پاکستان اور آئینِ پاکستان سے لاعلمی اور بہتان بازی۔
یہی المیہ ہے ہمارے سیاستدانوں کا کہ جب تنقید کرنے کو کُچھ ٹھوس بات نہ ملے تو محض جھوٹ اور بہتان بازی کا بھی سہارا لینے سے نہی کتراتے، اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
تحریر: شاہزیب
‎@shahzeb___

Comments are closed.