اصل حقدار کون؟؟؟
سورج ڈھل چکا تھا سائے لمبے ہوکر معدوم ہونے کے قریب تھے اور شام اپنا سحر طاری کرنے کو تھی ایسے میں راولپنڈی کے ایک غیر معروف چوک میں ایک دوست کا انتظار کرنے کیلئے جیسے ہی گاڑی روکی تو مختلف اطراف سے چند بظاہر مزدور نظر آنے والے لوگ میری گاڑی کے شیشوں سے مجھ سے مخاطب ہونے لگ گئے بھائی صبح سے بیٹھے ہیں مزدوری نہیں ملی کچھ راشن ہی دے دیں۔
چونکہ پچھلی سیٹ پر پڑے راشن کے پیک شاید ان کو نظر آ گئے تھے۔
میں ان کی مفلوک الحالی اور چہروں پر طاری مسکینیت سے متاثر ہوکر ان لوگوں کو راشن دینے کا ارادہ کر ہی چکا تھا لیکن اس سے قبل میں نے ان چاروں مزدوروں سے کہا کہ آپ سب میرے ساتھ گھر چلو تھوڑا سا کام ہے معقول مزدوری بھی دوں گا اور راشن بھی۔ بس میرا اس بات کا کہنا ہی تھا کہ وہ سب پیشہ ور بھکاری جو بظاہر مزردورں کے کیل کانٹوں سے لیس تھے مجھ سے پیچھے آکر رکنے والی پراڈو کے اردگرد ہوگئے اور چند منٹ میں اس گاڑی میں موجود خدا ترس خاتون سے بھاری بھرکم راشن کے پیک لیکر رفو چکر ہو چکے تھے۔
وہ راشن پیک دینے والی خاتون ان کو راشن تو دے چکی تھی لیکن نہ جانے کہاں سے چند لمحوں میں ہی درجنوں مانگنے والے مرد وزن اس کی گاڑی کو گھیرے کھڑے تھے اور اس خاتون سے اپنے بھوکے بچوں کا واسطہ دیکر راشن پیک مانگ رہے تھے۔ اور اس خاتون کے ہاتھ پیر پھول چکے تھے کہ ان مانگنے والوں سے کیسے جان چھڑائے۔ اور پھر اس خاتون کو اپنے پرس سے سو سو کے نوٹ نکال کر ان مانگنے والوں و دیکر بمشکل جان چھڑانے پڑی۔
یہ تو ایک چھوٹے سے چوک کا منظر تھا شہر کے مصروف چوکوں پر مزدوروں کی لگی لمبی لائنیں اور اسلام آباد کی سڑکوں کنارے بیٹھے یہ نام نہاد مزدور یقیناً ایسے سہل پسند خرچ کرنے والوں کے منتظر ہوتے ہیں جو آتے ہیں اور اپنی بڑی گاڑیوں کے شیشے کھول کر ان مزدوروں کے ہاتھوں میں پیسے تھما جاتے ہیں۔
یہ خرچ کرنے والے اپنے تئیں نیکی تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن نہ جانے کتنے لوگوں کو پیشہ ور بھکاری بنا رہے ہوتے ہیں اور ان بھکاریوں کی وجہ سے وہ سفید پوش لوگ جو مانگ نہیں سکتے ان خرچ کرنے والوں کے تعاون سے محروم رہ جاتے ہیں۔
میری خرچ کرنے والے تمام احباب سے درد مندانہ اپیل ہے کہ آپ خرچ کریں ضرور کریں لیکن اس میں اپنی سہل پسندی تلاش نہ کریں بلکہ تھوڑی سی تکلیف برداشت کر کے سفید پوش افراد کو تلاش کر کے ان تک راشن پہنچائیں کہ وہ مانگ بھی نہیں سکتے اور انتہائی مجبور بھی ہیں۔ خرچ کرنا اصل کام نہیں ہے بلکہ صحیح جگہ خرچ کرنا اصل کام ہے۔
خیراتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کے افراد سے گزارش ہے کہ کچی آبادیوں تک ضرور پہنچیں لیکن یہ بات بھی مدِ نظر رکھیں کہ ہر تنظیم یا ادارہ بظاہر ان کچی بستیوں کو ہی ہدف بناتے ہیں تو ایسے میں وہ سفید پوش گھرانے کہ جن کے کفیل موجودہ حالات کی وجہ سے بے روزگار ہوکر گھروں میں محصور ہیں اور ان کی عزتِ نفس گوارا نہیں کرتی کہ کسی سے سوال کریں ان تک اپنا تعاون بہر صورت پہنچائیں۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات اس حد تک پہنچ جائیں کہ یہ سفید پوش طبقہ حالات سے تنگ آ کر کوئی انتہائی اقدام کرے۔ ہاں ہمیں پہچاننا ہوگا اس سفید پوش طبقہ کو اور بچانا ہوگا انہیں بھی بھکاری بنانے سے