اشفاق احمد کی 18 ویں برسی

0
52

گفتگو کا بادشاہ سمجھے جانے والے ڈرامہ رائٹر ، دانشور، ادیب ، تجزیہ نگار، براڈ کاسٹر ، سفر نامہ نگار اشفاق احمد کو ہم سے بچھڑے 18 برس بیت گئے ہیں. علم و ادب کی یہ بہت بڑی ہستی قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آئی. پاکستان آنے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا یہاں بانو قدسیہ بھی پڑھتی تھیں وہ ان کی ہم جماعت تھی ان کی یہیں دوستی ہوئی اور یہ دوستی شادی میں بدل گئی. اشفاق احمد کا پہلا افسانہ 1953 میں آیا. اشفاق احمد کا شمار ان ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جو قیام پاکستان کے بعد ادب کے افق پر چمکے. 1968 میں وہ مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر منتخب ہوئے 89 تک یہ سلسلہ چلا . ضیاء الحق کے دور میں وفاقی وزیر تعلیم کے مشیر بھی مقرر

ہوئے. 1965 میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے یہاں انہوں نے ہفتہ وار پروگرام شروع کیا جو کہ 30 سال تک چلتا رہا. 70 کی دہائی کے شروع میں انہوں نے ایک محبت سو افسانے لکھا. طوطا کہانی اور من چلے کا سودا سے اشفاق احمد تصوف کی طرف مائل ہوئے. اشفاق احمد کو ڈرامہ کی کہانی لکھنے کے فن پر جو عبور حاصل تھا وہ کسی کسی کو نصیب ہوا ، اشفاق احمد پلاٹ سے زیادہ مکالموں پر زور دیتے ان کے کردار طویل گفتگو کرتے. اشفاق احمد نے پی ٹی وی پر زاویے کے نام سے پروگرام بھی کیا یہ پروگرام بہت زیادہ سراہا گیا. جگر کا عارضہ لاحق ہونے کے باعث آج ہی کے دن 2004 میں خالق حقیقی سے جا ملے .

Leave a reply