اتحاد امت کیوں ضروری ؟ — حاجی فضل محمود انجم

کچھ دن پہلے ہمارے شہر منچن آباد کے ایک مشہور و معروف عالم دین اور معلم سے کچھ دوستوں کے ہمراہ ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات ایک تبلیغی اور اصلاحی محفل میں تبدیل ہو گئی۔اس محفل کا لب لباب اور حاصل یہ تھا کہ فی زمانہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجاۓ مسلکی اعتبار سے اپنی پہچان کروانا اور اسی لحاظ سے اپنے آپ کو پروموٹ کروانا زیادہ اچھا خیال کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ رویہ اتحاد امت اور قومی یکجہتی کے بلکل منافی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا اسلامی تشخص اب پارا پارا ہونے کو ہے۔ان کا یہ کہنا تھا کہ آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ہم ان حقوق کو بھی اپنے مسلکی نکتہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں جو بطور مسلمان ہم پہ فرض ہیں۔حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد کہ "ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ اگر کوئی

(1)-سلام کرے تو اس کا جواب دیا جاۓ

(2)- کوئی بیمار ہے تو اس کی عیادت کی جاۓ

(3)-کوئی فوت ہو جاۓ تو اس کے جنازے میں شرکت کی جاۓ

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ان فرائض کی ادائیگی کو بھی اہنے مسلک کے ساتھ نتھی کر لیا ہے۔ہم سلام اسی شخص سے لینا زیادہ پسند کرتے ہیں جو ہمارا ہم مسلک ہے۔بیمار کی عیادت اسی کی کرتے ہیں جو یمارے اپنے مسلک کا ہے اور نماز جنازہ بھی اسی کی پڑھی جاتی ہے جو مسلکا” ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ساتھ ہی نماز جنازہ کی ادائیگی بھی اپنے مسلک کے مدرسے میں رکھنی ہے۔ہمیں کسی غیر مسلک کی وفات پر اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا اپنے ہم مسلک شخص کی وفات پر ہوتا ہے ۔

ایک مسلمان اور حضور کا امتی یہ دنیا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جا رہا ہے لیکن ہم اسے بھی اپنے مسلک کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

حالانکہ آقاۓ دو جہاں کی تعلیمات یہ نہیں ہیں۔آپ نے تو یہاں تک کیا کہ ایک یہودی بچے کے بیمار ہونے پہ اسکی عیادت اس کے گھر جا کر کی جو حضور کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھا کرتا تھا اور ایک کافر عورت جوکہ حضور کے گلی سے گزرتے ہوۓ سر مبارک پہ کوڑا پھینکا کرتی تھی اس کی بھی بیمار پرسی کی۔ہمارا یہ رویہ بطور مسلمان ہمارے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔

اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ ہمارے اس روئیے کی بناء پر یہ امت انتشار کا شکار ہو جاۓ۔ان کا کہنا تھا کہ ان باتوں پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیوں اس قسم کے رویوں کا شکار ہو رہے ہیں؟۔ہمیں اتحاد امت کو فروغ دینا چاہئے اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ "اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کو چھیڑو نہیں” اللہ پاک ہمیں ہدائت دے۔

Comments are closed.