ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کرانے کے حوالے سے کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں عام انتخابات اور ملک بھر میں ایک ہی روز الیکشن کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

ذرائع کے مطابق سماعت کے وقفے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، فاروق نائیک نے کیس کی سماعت کے وقفے کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے چیمبر میں اہم ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک نے ملاقات کے دوران ججز سے مزید وقت مانگ لیا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سیاسی قائدین کوباہمی مشاورت کیلئے کچھ وقت درکارہے۔

فاروق نائیک نے کہا کہ فضل الرحمان نے پارٹی سے مشاورت کیلئے وقت مانگا ہے۔ مولانا سینئر سیاسی شخصیت اور پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے استدعا کی کہ عدالت ہمیں عید کے بعد تک کا وقت دے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ انتخابات کےمعاملےپرتفصیلی مشاورت درکار ہے، پارٹی سربراہان اپوزیشن سے بات چیت کا لائحہ عمل طےکرینگے۔

ذرائع کے مطابق ملاقات کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے وقت دینے کی استدعا منظور کر لی۔ کھلی عدالت میں سماعت ہونےیانہ ہونےکےحوالےسےفیصلہ ہوگا۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر کراچی روانہ ہو گئے ہیں۔ جسٹس منیب اخترکی4بجےفلائٹ شیڈول تھی۔

گزشتہ روز وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کرنے کے بعد عدالت نےدرخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے آج پیشی پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو طلب کیا تھا۔ اس سے قبل سماعت کے آغاز کے موقع پر چیف جسٹس نے دعا کی کہ مولا کریم لمبی حکمت دے تا کہ صحیح فیصلے کر سکیں، ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے، عدالت نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔

عدالت میں فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے، عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے، سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات کا کام شروع کر چکی ہیں۔ بلاول نے اسی سلسلے میں فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، آصف زرداری بھی اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں، عید کے فوری بعد حکومتی اتحاد کے اندر سیاسی ڈائیلاگ کریں گے پھر پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ان مذاکرات سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو، الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے۔ انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہت بہتر ہوگا، حکومتی جماعتوں کا پہلے بھی یہی موقف تھا ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، کیوں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کا وقت میں گزر چکا ہے۔

ن لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم قیادت کے مشورے کے بعد آپ کے سامنے آئے ہیں، انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہتے، یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہیئیں۔ ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں، ہم سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاسں بلایا ہے، اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم جو میڈیا پر بات کرتے ہیں وہ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کچھ کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے۔

دورانِ سماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی) مینگل کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ سیاست اپنی جگہ مگر سب اچھے اکٹھے لگتے ہیں، بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بی این پی کی قیادت اس وقت دبئی میں موجود ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں۔

عدالت نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو روسٹرم پر بلایا تو انہوں نے بتایا کہ میں رات کو پاک افغان بارڈر سے آکر یہاں عدالت پیش ہوا ہوں، ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری رہنمائی فرمائے۔ قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کارروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو، سراج الحق نے کہا کہ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی، آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔

پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پارٹی کا نقطہ نظر ہیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے، کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا لیکن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تلخی کی بجائے اگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے جس کا آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے 17 اپریل تک وسائل فراہم کرنے کا حکم دیا لیکن کیا اس پر عمل ہوا، آئین کے مطابق یہ اپنا ایک پروپوزل دیں ہم اس کو دیکھیں گے۔ کیا ملک کو پارلیمانی قررادادوں سے چلانا چاہتے ہیں، ہم نہ انتشار چاہتے ہیں نہ آئین سے انحراف، مذاکرات کے حامی ہیں جو آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ سراج الحق، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کچھ اور تھی۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، ایک ہی نکتہ ہے اس پر مل کر بات کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تمام لیڈرز نے آئین کی پاسداری کی بات کی ہے، ملک کا نظام آئین کے تحت چلتا ہے اس پر عمل نہیں کریں گے تو اگر مگر میں پھنس جائیں گے۔

پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے، عدالت انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے 14 مئی کے فیصلے میں ایک وجہ نظر آئی تھی کہ کمیشن تاریخ بدل نہیں سکتا، کچھ غلط فہمیاں ہوئی ہیں، سب کا مؤقف ہے ایک دن میں الیکشن ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ عدالت ان پریکٹیکل چیزوں پر غور نہیں کرسکتی، ہم آئین اور قانون کے پابند ہیں، ہو سکتا ہے پس پردہ جماعت اسلامی نے کچھ کیا ہو، اخبارات میں پیپلز پارٹی کا مؤقف واضح طور پر سامنے نظر آیا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمٰن سے بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے مولانا فضل الرحمٰن بھی لچک دکھائیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزارت دفاع نے 14 مئی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی، ایسے فیصلے واپس نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 14 مئی ہے۔

Shares: