نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد اٹارنی جنرل نے تحریری معروضات سپریم کورٹ میں جمع کروا دیں ہیں جبکہ تحریری جواب میں لکھا ہے کہ نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا جائے، اور درخواست گزار کیمطابق حالیہ نیب ترامیم کے باعث منتخب نمائندوں کے احتساب کا عمل کمزور ہوا ہے.
تحریری جواب میں منتخب عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں عوام کا امین کہتے ہیں اور درخواست گزار نے اسی عوام کے اعتماد کو ٹھکرا کر اراکین اسمبلی کو مستعغی ہونے کا کہا جبکہ تحریری جواب میں مزید کہا کہ پارلیمان کو چھوڑ کر چئیرمن پی ٹی آئی نے اپنے حلقے کے ان لوگوں کی آواز دبائی.
مزید یہ بھی پڑھیں؛
ایشیا کپ:پاک بھارت میچ بارش کے باعث روک دیا گیا
ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث سیاستدانوں کی تفصیلات سامنے آ گئیں
قائد کے رہنما اصولوں کو اپنانا ہو گا. اسپیکر قومی اسمبلی
کراچی میں 100 مقامات پر سہولت بازار کا انعقاد
تحریری جواب میں یہ بھی لکھا کہ ترامیم کیخلاف درخواست کے پیچھے چئیرمن پی ٹی آئی کے مذموم مقاصد ہیں، خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد وفاق سے جواب طلب کرلیا تھا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منگل کو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور جمعے کو چیف جسٹس کی عدالت کے معاون نے فریقین کے وکلاء سے رابطہ کیا۔
سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلاء کو فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد ایک سوال بھجوا کر جواب مانگا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا تھا کہ احتساب عدالت دائرہ اختیار میں نہ ہونے پر کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف ریفرنس منتقل کرتی ہے؟ اور وہ کون سی مجاز عدالت ہوگی جو ریفرنس کا فیصلہ سنائے اور کس قانون کے تحت؟ وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے 9 ستمبر کو سپریم کورٹ کے سوال کا 5 صفحات پر مشتمل جواب متفرق درخواست کے ذریعے جمع کرا دیا۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان کی اجنب سے جمع کرائے گئے جواب میں لکھا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عدالتی معاون کے ذریعے سوال بھجوایا گیا، سوال کے ساتھ ہدایت بھی پہنچائی گئی کہ فاضل وکیل اس کا لازم جواب دیں۔ جواب میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے قانون میں ابھی تک پارلیمینٹرین ہونا جرم قرار نہیں دیا گیا، چیف جسٹس کے سوال کا جواب مختلف صورتِ حال پر انحصار کرتا ہے۔