عورت مارچ کے حوالے سے اسلام پسندوں کا نمائندہ موقف

عورت مارچ کے بارے میں اسلام پسندوں نے اپنے موقف میں کہا کہ یہ مارچ اپنی ہی ذات کے اندر نہ عقلی ہے نہ منطقی ہے اور نہ ہی اس کو شریعت کی پشت پناہی حاصل ہے

باغی ٹی وی: عورت مارچ کے بارے میں علامہ حشام الہی ظہیر نے اپنے موقف میں کہا کہ میرا جسم میری مرضی کے حوالے سے ہونے والے مارچ میں یہ نعرہ اپنی ہی ذات کے اندر نہ عقلی ہے نہ منطقی ہے نہ ہی اس کو شریعیت کی پشت پناہی حاصل ہے عام فہم بات یہ ہے کہ انسان کا اپنے جسم اور اپنے اوپر اختیار کتنا ہے

فیروز خان نے عورت مارچ کے خلاف قرآن پاک کی آیت پیش کر دی


انہوں نے کہا جن لوگوں کے گھر آپ پیدا ہوئے کیا آپ کو اختیار دیا گیاتھا کہ آپ کے والدین کون ہوں گے یہ اختیار ہے کہ آپ اپنی مرضی سے والدین بہن بھائی بلڈ گروپ وطن کنبہ خاندان قبیلہ چن لیں یہ اب انسان کے پاس اللہ کی امانت ہیں

علامہ حشام نے کہا جبکہ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ عورتیں علماء اور مولویوں کو ایسے ایسے القابات سے نوازتی ہیں اور کہتی ہیں یہ ہمیں گھروں میں بند کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ پاک فرماتا ہے تو تم اپنے گھروں میں قرار پکڑو یہ اللہ کا قول ہے کسی مولوی کا نہیں اگر عورتوں کے بارے میں یہ قول ہے تو ہمارا تعلق اس مذہب اور شریعت سے ہے جس میں ہمارے نبی پاک نے ایک صحابی سے کہا کہ گھروں میں قرار پکڑو مردوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا چوکوں اور چوراہوں پر نظریں جھکانے کا حکم دیا

مسلمان کے پروٹوکول کے بارے میں تو اللہ نے آسمان سے ناذل کیا ہے کہ عورت کیسے رہے گی اس کے حقوق کیا ہوں گے

یہ عورتیں چاہتی کیا ہیں میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے لگا کر مردوں کے برابری کے حقوق کے نعرے لگا کر کیا یہ مردوں کی برابری کر سکتی ہیں کیا یہ مردوں جتنی مشقت والی مزدوری کر سکتی ہیں یہ سب کچھ نہیں کر سکتیں

مذہبی سکالر نے کہا یہ جو مافیا یہ تو عورت بریگیڈ ہے اس قبیلے کی عورت کو الو کی پٹھی جیسا خطاب ایک صاحب نے ٹی وی پر بیٹھ کر دیا اس تہذیب کے منہ پر ایک چانٹا رسید کر کہ اس الو کی پٹھی کا حلیہ بگاڑ دے، یہ کونسی سوچ اور فکر ہے یہ کونسا فلسفہ اور منطق ہے میں آپ کو شرح صدر یہ بات کہتا ہوں کہ ان عورتوں کا کردار ان عورتوں کا کلچر اُن عورتوں کی طرح جو بازار میں نچیوں کی جسم فروشی کر کے اپنے گھروں کی دال روٹی اور روزی کماتی ہیں یہ درندہ صفت عورتیں ہیں

مولانا خادم رضوی خلیل الرحمن قمر کی حمایت میں سامنے آ گئے


علامہ صاحب نے کہا ملک کے اندر ریپ کی سزا کے اوپر اسلامی طبقہ جب بھی سزائے موت کی بات اٹھاتا ہے تو یہی لبرل مافیا موم بتی مافیا جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے درمیان میں آجاتا ہے تب ان کو عورتوں کے حقوق کا یہ حق نظر نہیں آتاکہ ان کی عصمت دری نہ ہو ریپ نہ ہو یہ اپنی زیرنگرانی جسم فروشی کے اڈے چلانے والی عورتیں ہیں

مذہبی سکال نے کہا آج یورپ کی مسلمان بیٹی حجاب کی جنگ لڑ رہی ہے اور یہ پاکستان کی مغرب زدہ عورتیں ہیں یہ بے نقابی اور بے حجابی کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں اسلامی شعور کا تمسخر اڑاتی ہیں اگر یہ عورتوں سے مخلص ہوں تو یہ ایمنداری سے ریپ کے سلسلے میں سزائے موت دینے پر ہم آواز نہ ہوں یہ جسم فروشی کے اڈے بند کرنا چاہیں یا نہ چاہیں یہ اصل میں عورتوں کی آزادی کی جنگ نہیں ہے یہ عورتوں تک آزادی کی جنگ ہے عورتوں تک رسائی کا کلچر ہے یہ ان عورتوںً کو پروموٹ کر کے اپنا کاروبار چلانا چاہتی ہیں

امر باالمعروف میں ہے کہ کسی ظلم یا برائی کو ہاتھ سے روکیں اگر نہ روک سکتے ہوں تو زبان سے روکیں یہ بھی نہ کر سکتے ہوں تو دل میں بُرو کہہ لیں افسوس کے ساتھ آج اگر ہم ایمان کی کمزوری میں ہیں اگر اپنے ہاتھ سے اس قسم کے مارچ کو روک نہیں سکتے تو آواز تو اٹھا سکتے ہیں

یہ قانون دان یہ منصف کیسے قانون پڑھے ہوئے لوگ ہیں پاکستان کا آئین اسلامی اقدار کی حفاظت کی گارنٹی دیتا ہے اسلامی اقدار کو پروموٹ کرنے کی گارنٹی دیتا ہے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی حوصلہ افزایی کرتا ہے کیا یہ ملک سیکولرزم کے نام پر بنایا گیا تھا اگر اس ریاست کو سیکولر ریاست بنانا تھی تو ہنوستان سے علیحدہ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے یہ ملک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا اسلامی قوانین کے مطابق زندگیاں گزارنے کے لئے حاصل کیا ہے

علامہ حشام الہی ظہیر کے مطابق کچھ قانون دانوں اور منصف دانوں کو یہ تک نہیں پتہ کہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے اسلامی اقدار کو فروغ دیا جائے گا آپ کو چاہیئے تھا آپ اس مارچ کو رکوانے کے لئے آرڈر جاری کرتے یہ اسلام کے ساتھ مذاق ہے یہ اسلام کا تمسخر اڑا رہی ہیں یہ کسی مولوی کا قول نہیں کہ گھروں میں قرار پکڑو یہ اللہ کا قول ہے یہ اسلامی اقدار اسلامی معاشرت اور اسلامی شریعیت کے بنیادی قوانین ہیں آپ ان پر پابندی لگانے کی بجائے ان کو اجازت دے رہے ہیں

عورت مارچ کا خواتین کے حقوق سے کیا تعلق ہے? دعا بھٹو

Comments are closed.