کیا باپردہ عورتوں کا سڑکوں پر نکلنا مفاسد سے خالی ہے؟ کیا ان کا میڈیا کو بیان دینا ہاتھ لہرا لہرا کر جوش میں باتیں کرتیں جائز ہے؟ کیا بازوں اوپر بلند کرکے سڑکوں کا طواف کرنا جائز ہے؟
اباحیت کی علمبردار خواتین اپنے مذموم مقاصد کی ترویج اور اپنے آقاؤں سے لیے ہوئے مال کو حلال کرنے کے لیے سڑکوں پر مکمل بے حیائی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکل رہی ہیں جس پر بعض دینی طبقے نے ان کا جواب دینے کے لیے اپنی خواتین کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے جو کہ شرعًا غلط ہے اور منکر کا منکر کے ذریعے ازالہ ہے اس پر بعض منتسبینِ علم نے ان کو جواز بخشنے کی کوشش کی ہے مختلف قاعدے بنا کر دلائل تراش خراش کر انہیں جواز مہیا کیا جا رہا ہے جبکہ کل اسی عمل کو ناجائز سمجھا جارہا تھا
اسلام مکمل دین ہے اس میں دعوت وجہاد، امر بالمعروف، ونہی عن المنکر اور تغییر منکر کے قواعد وضوابط متعین کردیے گئے ہیں، اس لیے بے حیائی کو روکنے کے لیے اپنی خواتین کو سڑک پر لا کھڑا کرنا شرعا غلط ہے، جبکہ عورت کا گھر اس کے لیے بہتر ہے، بازار سب سے بری جگہ ہے، اور پھر ان بے حیا عورتوں کی سازش ہی یہی ہے کہ ان باپردہ سیپ میں بند موتی کی طرح باحیا عورتوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا جائے۔
کیا باپردہ عورتوں کا سڑکوں پر نکلنا مفاسد سے خالی ہے؟ کیا ان کا میڈیا کو بیان دینا ہاتھ لہرا لہرا کر جوش میں باتیں کرتیں جائز ہے؟ کیا بازوں اوپر بلند کرکے سڑکوں کا طواف کرنا جائز ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مردوں کو فرما رہے ہیں کہ (وليسعك بيتك) اور ہم عورتوں کو سڑکوں پر لا رہے ہیں اور پھر فتنہ کے اس دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف مردوں اور عورتوں کے قریب ہونے جبکہ وہ نماز ادا کرنے آئے ہیں فرمائیں کہ مردوں کی پچھلی صف (جو عورتوں کے قریب ہے) وہ بری ہے اور عورتوں کی پہلی صف بری ہے جو مردوں کے قریب ہے اور ہم انہیں بازاروں کا طواف کروا رہے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم تو حکم دیں کہ عورتیں مسجد سے پہلے نکلیں بعد میں مرد نکلیں مگر ہم عورتوں کا مردوں سے بھرے بازار میں لے آئیں میڈیا پر بیان دلوائیں تصویر کشی کرکے اخبارات کی زینت بنائیں کیا یہ ہے تغییر منکر؟ یہ تو خود منکر ہے جس کا ازالہ ضروری ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو عورتوں سے بیعت لی کہ جاہلیت والا تبرج نہیں کرنا، اور ہم عورتوں کو کفریہ ڈیموکریسی کے دیے تحفے مظاہرات پر لگادیں (تبرج ہر چیز کو شامل ہے جس سے عورت اسلام کے شرعی اصولوں سے نکل کر بے پردگی میں واقع ہو) [وَاللَّهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا]
(اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی فرمائے اور جو لوگ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سےہٹ جاؤ)
ان چند بے حیا عورتوں کا فتنہ چند مخصوص مقامات پر ہوتا تھا اور اس کی نا مانوسیت اور شناعت کی وجہ سے میڈیا بھی خبر دینا پسند نہیں کرتا تھا، مگر تغییر منکر کے قواعد وضوابط سے ہٹ کر جوش اور جذبات کے ماروں نے اسے سوشل میڈیا پر اتنی ہوا دی کہ اب اس پر کئی کئی دن ٹاک شوز بھی ہوتے ہیں اور ہر ہر گھر میں اس کی خبر پہنچ گئی ہے کیا کوئی ہے اس پر سوچنے والا؟ اللہ کے لیے اس پر سوچیں، دین اسلام ایک منضبط دین ہے اس میں متہورانہ جوش کی کوئی اہمیت نہیں
حیا مارچ کرنے والی خواتین نے یہ مارچ کرکے خواتین کے گلیوں بازوں میں گھومنے احتجاج ومظاہرات میں شریک ہونے کی شناعت کو کس قدر کم کر دیا ہے کہ منتسبین علم بھی اس شناعت کو محسوس نہیں کررہے۔
"فليبـك من كان باكيا”
"بے حیائی کے خلاف عورتوں کا سڑک پر نکل کر حیا واک کرنا خود سے حیائی ہے” ایسا ہمارے ایک محترم بھائی نے فرمایا، جسے بعض الناس اسے حیا مارچ کرنے والی عورتوں پر قذف کہہ رہے ہیں
كم من عائب قولا صحيحا
وآفته من الفهم السقيم
اور پھر اس پر قذف والی آیات و احادیث منطبق کی جا رہی ہے، کیا کسی کام کو بے حیائی کہنا کسی پر قذف ہے؟ جناب حیا اور بے حیائی کا معنی تو سمجھ لیں۔ فعل اور فاعل پر حکم کا کیا تعلق ہوتا ہے اسے بھی سمجھ لیں۔ عمومی حکم اور خصوصی حکم میں کیا فرق ہوتا ہے یہ بھی نظر میں رکھیں۔ اور پھر واضح احکام ونصوص کو چھوڑ کر فتنے کے وقت کی باتوں سے استدلال کرنا کیا منہج سلف سے انحراف نہیں؟! ام المومنین رستے میں کسی مرد کو دیکھیں تو بیٹھ جائیں کہ کہیں وہ مجھے دیکھ نہ لے پہچان نہ لے، ان کے جمل میں شریک ہونے کے حوالے دیے جا رہے ہیں، اللہ المستعان۔ "من ضيع الأصول حرم الوصول”۔
بعض لوگوں نے اپنے حیا مارچ والے موقف کو مجدد السنہ علامہ البانی رحمہ اللہ پر ڈالنے کی مذموم کوشش کی اور کہا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب "الرد المفحم” ایسے لوگوں کی شدت پر رد ہے جو عورتوں کو معاشرے کا حصہ بننے سے روکتی ہے۔
"وإن تعجب فتعجب!!!!”
اور ایک بھائی کا کہنا ہے "الرد المفحم” اس دقیانوسی سوچ پر رد ہے۔ جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب چہرے اور ہاتھوں کے پردے کے وجوب اور سنیت کی بحث پر مشتمل کتاب ہے نہ کہ سڑکوں بازوں کا طواف کرنے والی عورتوں کی حمایت میں۔ اور پھر یہ ایک فقہی بحث ہے جس کا سڑکوں پر مظاہرے کرنے کے لیے نکلنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اور پھر جمہور علماء نے شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف کا رد بھی کیا ہے، اور پھر شیخ رحمہ اللہ افضل چہرے اور ہاتھوں کے پردے کو ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ آپ کی بیٹی نے کتاب لکھی ہے "الأفضلية لستر المرأة وجهها وكفيها لا لكشفهما استنارة بفقه والدي الإمام العلامة محمد ناصر الدين بن نوح الألباني” اور اس کے علاوہ شیخ کے چہرے اور ہاتھوں کے چہرے کے عدم وجوب کے رد پر علماء نے کتب لکھیں ہیں جن کے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں۔ رہی بات اسے ان کی اپنی بنائی دقیانوسی کے خلاف اس کتاب کا ہونا تو ایسا کچھ نہیں بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے مظاہرات اور احتجاج کرنے پر رد میں اتنا کلام ہے کہ کتب مرتب ہوسکتی ہے اور پھر عورت کے مارچ کو شیخ رحمہ اللہ کے ذمہ ڈالنے کی مذموم کوشش کرنا چہ معنی دارد؟
بعض جاہل ان بے حیا عورتوں کے جواب میں سڑکوں پر نعرے لگا رہے ہیں کہ سہیلی کے گھر خود ڈراپ ہو، اپنی چھپکلی خود مارو، فریج سے برف خود نکالو، وغیرہ وغیرہ کیا یہ اپنے گھر بیٹھی خواتین کو جواب دے رہے ہیں یا ان بے حیا عورتوں کو جواب دے رہے ہیں جو اس سب سے چیزوں سے آزادی چاہتی ہیں کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو جہاں چاہیں جائیں جو چاہیں کریں۔
کیا ہوگیا ہے ان لوگوں کو؟ کیمرے کے سامنے آنے کی ہوس ان سے کیا کیا کروا رہی ہے؟ کیا ان کی عقل ان کے ساتھ نہیں؟
اللهم إنا نبرأ إليك من هذا كله
اللهم لا تؤاخذنا بما يفعل السفهاء منا