Author: Baaghi TV

  • کشمیر جنت نظیر وادی نیلم کا یادگار ٹور … طارق محمود

    کشمیر جنت نظیر وادی نیلم کا یادگار ٹور … طارق محمود

    اکثر لوگ لوگ عید الفطر، عید الاضحی، 14 اگست اور دیگر موقعوں پر گھومنے پھرنے کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں سیر و سیاحت سے سے انسان ایک دفعہ پھر روزمرہ زندگی کے امور انجام دینے کیلئے زیادہ چست ہو جاتا ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر وادی لیپا دیکھنے کا ارادہ کیا دوستوں سے مشاورت کے بعد طے ہوا کہ موٹر سائیکلوں کی سواری کی جائے آئے اور عید کے دن شام دس بجے نکلنے کا فیصلہ کیا گیا معلومات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ہمارے گروپ میں سے کوئی بھی بندہ پہلے وادی لیپا نہیں گیا وادی لیپا کے متعلق معلومات رکھنے والے دوستوں نے کہا کہ اگر آپ وادی لیپا جانا چاہتے ہیں ہیں تو ضروری ہے کہ آپ میں سے کم از کم ایک بندہ ایسا ہو جو اس سے پہلے وادی لیپا جا چکا ہو، ورنہ بہتر ہوگا کہ آپ وادی نیلم کا رخ کریں کیونکہ وادی نیلم بھی خوبصورتی کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اپنا پروگرام بدلنا پڑا اور میں اپنے دس دوستوں کے ساتھ عید شام 10 بجے وادی نیلم کی صرف موٹر سائیکل پر روانہ ہوا ،

    رات ہونے کی وجہ سے سے شدید گرمی اور لو سے تمام دوست محفوظ رہے مری ایکسپریس وے شروع ہوتے ہی بولان ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ پر رکے ہاتھ منہ دھویا اور چائے سے لطف اندوز ہوئے جس کے بعد ایکسپریس سے ہوتے ہوئے مری اور پھر کوہالہ تک باآسانی ہم صبح چھ بجے پہنچ گئے کوہالہ چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ دکھا کر انٹری کروائی گئی اور وہاں دس منٹ رک کر دوستوں نے دریا کے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھویا تیز رفتار دریا کا نظارہ کیا اور ابھرتے ہوئے سورج کا حسین منظر دیکھا جس کے بعد مظفرآباد کی طرف قافلہ رواں دواں ہوا ساڑھے سات بجے ہم مظفر آباد لاری اڈا کے قریب پہنچے اور گرما گرم پراٹھے، آملیٹ اور چنوں کے ساتھ ناشتہ کیا تقریبا 30 سے 35 منٹ کے قیام کے بعد آباد جی ٹی بائیکرز کا قافلہ آٹھمقام کی طرف روانہ ہوا تو چند ہی کلومیٹر پر آرمی کی چیک پوسٹ آئی جہاں پر ایک دفعہ پھر ہمیں انٹری کرانی پڑی چیک پوسٹ پر موجود فوجی جوانوں نے اپنے بہترین رویہ سے ہمیں متاثر کیا اور آگے وادی کے موسم اور حالات کے بارے میں دوستانہ معلومات فراہم کی 30 سے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہم آگے بڑھتے رہے اس دوران دریائے نیلم بل کھاتا ہوا ہمارے ساتھ ساتھ چلتا رہا اونچے پہاڑ ،خوبصورت جنگلات، ندی ،نالے اور آبشاروں نے ہمارے دل کو بہلایا کبھی چشموں کا پانی پیتے تھے اور کبھی آبشاروں کے پاس کھڑے ہوکر تصویریں بنا لیتے جس پر پتہ چلا کہ وادی نیلم آنے کا ہمارا فیصلہ انتہائی درست تھا بلا آخر دن ایک بجے ہم اٹھمقام پر پہنچے۔

    13, 14 گھنٹے مسلسل موٹر سائیکل چلانے کی وجہ سے دوستوں کے چہروں پر تھکاوٹ کے اثرات نمایاں تھےہوٹل میں کمرہ لینے کی بجائے کروائے پر ٹینٹ لیا گیا شام تک دوستوں نے خوب آرام کیا کھلے صحن میں دوستوں نے مل کر باربی کیو کی اور ٹھنڈے موسم میں گرم تکے کھا کر شام کو یادگار بنایا گیا اسی دوران تمام دوستوں نے اس ٹور کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن سے صاف پتہ چلتا تھا تھا کہ ہر کوئی بہت خوش تھا اور جتنی حوبصورتی انہوں نے دیکھی شاید وہ اتنی توقع نہیں رکھتے تھے صبح جلدی اٹھا گیا اور موٹر سائیکلوں کا قافلہ اڑنگ کیل کی جانب چل نکلا۔دواریاں کے قریب ناشتہ کیا گیا اور مقامی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اس بعد ہم مختلف وادیوں گاؤں سے ہوتے ہوئے شاردہ پہنچے یہاں سے کیل اور اڑنگ کیل تک کا راستہ اکثر کچا ہے لینڈ سلائیڈنگ جگہ جگہ ہوتی ہے اور ڈرائیورز کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے کچے پکے رستوں تو اور پہاڑوں سے آتے ہوئے سڑک کے اوپر سے بہنے والے چشموں کے پانی سے گزرتے ہوئے ہم کیل میں داخل ہوئے آئے اور یہاں بھی ہمیں دوبارہ آرمی چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ دکھا کر انٹری کروانی پڑی موٹر سائیکل اور سامان پارکنگ میں جمع کروایا اور کیبل کار کی بجائے پیدل دریا کے پل سے ہوتے ہوئے جنگلات میں سے گزر کر اوپر پہاڑ پر چڑھے اور تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد اڑنگ کیل پہنچے پہاڑوں دریا اور ندی نالوں کے مختلف دل چھو لینے والے مناظر دیکھے اور تصویریں بناتے رہے گرم چائے کا مزا لیا گیا ہوٹل میں کمرہ بک کروایا گیا یہاں پر بھی ہم نے رات کا کھانا خود تیار کیا اور کھانا کھانے کے بعد دوست سو گئے صبح جب اٹھے تو باہر بارش ہو رہی تھی اور بادل انتہائی نچلی سطح پر رواں دواں تھے مجھے ایسے دلکش مناظر دیکھنے کو ملے جو کسی سے ہالی ووڈ فلم میں بھی نہیں دیکھیں تھے دوستوں نے ایک دفعہ پھر برف پوش پہاڑوں کی فوٹوگرافی کی صبح کا ناشتہ کیا گیا اور پھر اڑنگ کیل سے نیچے اترے جہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا ہوا شاردہ پہنچ کر دوپہر کا کھانا کھایا گیا اور دریا کنارے دوستوں نے تصویریں اور سیلفیاں بنانے کا شوق پورا کیا یاد رہے کہ وادی نیلم میں وہاں کے مقامی موبائل نیٹ ورک کے علاوہ کوئی اور موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا اور شاردہ میں قیام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہمارے دو دوست ایک موٹر سائیکل پر کہیں پیچھے رہ گئے تھے جن کا انتظار کیا گیا سہ پہر 3 بجے کے قریب دواریاں پہنچے رتی گلی جھیل دیکھنے کی موسم نے اجازت نہ دی راستے میں بارش نے پھر آ لیا۔جس سے سبق حاصل ہوا کہ کہ وادی نیلم کی سیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے ساتھ برساتی رکھے یا پھر کم از کم چھتری ضرور ہو کیونکہ جس طرح موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہیں اسی طرح لگتا ہے کہ وادی نیلم میں بارش کا بھی کوئی وقت مقرر نہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سخت دھوپ سے سے شدید بارش میں موسم تبدیل ہو جاتا ہے شام سات بجے کے قریب آٹھمقام ہوٹل پر واپس پہنچے اور حسب حال ہم نے کھانا خود تیار کیا شام کو بازار میں نکلے لے اور کشمیری نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں انتہائی دلچسپ بات یہ تھی کہ وادی نیلم کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی پڑھی لکھی ہے ہے حالانکہ ان کو پانچ، دس اور پندرہ کلومیٹر تک پہاڑ چڑھ کر یا پہاڑ اتر کر سکول یا کالج پیدل جانا پڑتا ہے اگلی صبح اٹھمقام سے روانہ ہوئے آئے اور راستہ میں کنڈل شاہی اور کٹن کی وادیوں کی سیر کی گئی 12 بجے مظفرآباد میں ناشتہ کیا گیا یا اور براستہ کوہالہ مری ایکسپریس وے اسلام آباد پہنچے مری ایکسپریس وے کے اختتام پر تیس منٹ کا قیام کیا گیا اور چائے پی گئی اس کے بعد تین گھنٹے کے سفر کے بعد تمام دوست خیروعافیت سے گجرات واپس پہنچ گئے یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وادی نیلم میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد سیر کرنے کے لئے پہنچی ہوئی تھی اور مجھے وہ رجان کم ہوتا ہوا نظر آیا جس کے مطابق پاکستان کی ایلیٹ کلاس پاکستان کی سیر کرنے کی بجائے یورپ کی طرف نکل جاتی ہے اور ہاں اگر آپ بھی موٹر سائیکل پر جانا چاہتے ہیں تو پنکچر کا سامان ساتھ ضرور رکھیں۔

  • بول ٹی وی کی مہم، سینئر صحافیوں کا پیمرا سے نوٹس لینے کا مطالبہ، فواد چوہدری کا قانونی کاروائی کا اعلان

    بول ٹی وی کی مہم، سینئر صحافیوں کا پیمرا سے نوٹس لینے کا مطالبہ، فواد چوہدری کا قانونی کاروائی کا اعلان

    بول ٹی وی اور فواد چوہدری کے درمیان چند دنوں سے جاری لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے اور مختلف صحافتی حلقوں کی جانب سے پیمرا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بول ٹی وی کی جانب سے شروع کی گئی بے بنیاد مہم کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے خلاف کاروائی کرے۔

    باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی اور اینکر حامد میر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بول نیٹ ورک نے صرف وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے خلاف ہی مہم شروع نہیں کی بلکہ چار ٹی وی چینلز جیو، دنیا، ڈان اور ایکسپریس کے خلاف بھی ماضی میں گستاخی کے الزامات لگائے گئے تھے مگر عدالت میں مجھ سمیت بعض دیگر صحافیوں کے خلاف وہ عدالت میں کسی طرح کا بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسی طرح دیگر کئی صحافیوں نے بھی بول ٹی وی کی طرف سے شروع کی گئی مہم پر اسے تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔

    یاد رہے کہ سینئر صحافی سمیع ابراہیم نے چند دن قبل ٹویٹر پر ویڈیو شیئر کی تھی جس میں انہوں نے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے اندر سے بعض لوگ سازش کر رہے ہیں جن میں فواد چوہدری پیش پیش ہیں اور ان کا پیپلز پارٹی سے رابطہ بھی ہے۔صحافی سمیع ابراہیم کے اس دعویٰ پر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے انتہائی سخت ٹویٹس کی تھی جبکہ اب فواد چوہدری نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ سمیع ابراہیم اور ان کے مالکوں کے خلاف امریکہ میں قانونی کاروائی کا آغاز بھی کر رہے ہیں۔

  • ملک ترقی کیسے کر سکتا ہے…. فیصل ندیم

    ملک ترقی کیسے کر سکتا ہے…. فیصل ندیم

    کیا آپ کو یہ بات مذاق نہیں لگتی کہ ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں طیارے بنا رہے ہیں ٹینک بنا رہے ہیں دنیا کا بہترین میزائل سسٹم بھی ہم نے ہی تخلیق کیا ہے کل ہم دفاعی ضروریات پوری کرنے کیلئے دنیا کے محتاج تھے آج ہم دنیا کو یہ چیزیں برآمد کررہے ہیں اگر ہم یہ سب کرسکتے ہیں تو سب کچھ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔

    ایک ایسا ملک جو ہمیشہ درآمدی بل کے خسارہ کا شکار رہتا ہے وہ کیسے ترقی کرسکتا ہے اگر اس کے ہر بازار کی ہر دکان کی ہر الماری غیر ملکی مصنوعات سے بھری ہوگی گاڑیاں بسیں ہیوی ٹرک تو بڑی شے ہے بچوں کیلئے بنایا گیا پلاسٹک کا کھلونا بھی ہم کسی اور ملک سے درآمد کررہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ق
    ایسا نہیں ہے کہ ہم میں صلاحیت نہیں ہے اگر صلاحیت نہ ہوتی تو دفاعی سازوسامان کے ساتھ دنیا کے بہترین سرجیکل آئٹمز ، اسپورٹس کا بہترین سامان ، معیاری الیکٹریکل اپلائنسز اور بہترین سینیٹری آئٹمز ہم نہ بنا رہے ہوتے ۔۔۔۔۔
    اس پوری کیفیت کی سب سے بڑی ذمہ دار ہمیشہ سے ہماری حکومتیں رہی ہیں جو صنعتکار کو اپنی صنعت چلانے کیلئے بہتر سہولیات اور ماحول دینے میں ناکام رہی ہیں چھوٹے چھوٹے اجازت ناموں کیلئے لمبے اور تھکا دینے والے طریقہ کار اور ہر منظوری پر رشوت کا بھاری بھرکم بوجھ کبھی بھی صنعتی ترقی کے فروغ کو سبب نہیں ہوسکتا مہنگی بجلی مہنگی گیس اور سازگار ماحول کی غیر موجودگی میں درآمدات کوگھٹا کر برآمدات بڑھانا مشکل نہیں ناممکن ہے ۔۔۔۔

    بھاری بھرکم بیرونی و اندرونی قرضہ ،بجٹ خسارہ ، گردشی قرضہ جات ہمیشہ ہر حکومت کا مسئلہ رہے ہیں بدقسمتی سے ہر آنے والی حکومت نے اپنی سیاست اور ووٹ بنک کو تحفظ دینے کیلئے حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے شارٹ ٹرم حل کی جانب توجہ کی ہے نتیجتاً ہر آنے والی حکومت میں ہم مسائل کے حل کے بجائے مسائل کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے ہیں ۔۔۔۔۔
    ان مسائل کے حل کا ایک ہی طریقہ ہے درآمدی اشیاء کی آمد کے طریقہ کار کو مشکل سے مشکل تر بنایا جائے غیرملکی اشیاء پر ڈیوٹیوں میں اضافہ کیا جائے جبکہ ملکی صنعت کو سازگار ماحول سستی بجلی سستی گیس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک موجود سفارتخانوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کیلئے نئی منڈیاں تلاش کی جائیں ( یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بیرون ممالک پاکستان کی نمائندگی کیلئے بننے والے سفارتخانوں میں تقرریاں سیاسی رشوت کے طور پر کی جاتی ہیں نتیجتاً سفارتخانے عیاشی کے اڈے کے طور پر تو استعمال ہوتے ہیں پاکستان کی نمائندگی کیلئے نہیں ) ۔۔۔۔
    ملکی صنعت کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ اس کیلئے خام مال کی فراہمی کو نہایت آسان اور سہل بنایا جائے ضرورت پڑنے پر حکومت ان اشیاء پر سبسڈی بھی فراہم کرے تاکہ صنعتکار کی دلچسپی بڑھائی جائے سکے پاکستان میں کارخانے لگانے والے ہر بیرونی سرمایہ کار کو ضروری سہولیات فوری اور آسانی کے ساتھ فراہم کرنے کے ساتھ انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کریں گے ٹیکنالوجی کے حصول کے بغیر اغیار کی محتاجی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔۔

    جان لیجئے حکومتیں عوامی تعاون کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اس لیے عوامی سطح پر شعور کی بیداری کی مہم چلانا ضروری ہے ہر دکان ہر مارکیٹ میں میڈ ان پاکستان اشیاء کو نمایاں کرکے رکھنا ضروری ہے عوام کو سمجھانا ضروری ہے کہ آپ کے شوق کی تکمیل یا چند روپوں کی بچت ملک و قوم کی بہت بڑی تباہی کا سبب ہے اس لئے میڈ ان پاکستان اشیاء کا انتخاب کیجئے تاکہ ہم غیرملکی قرضہ جات سے نجات حاصل کرکے غیروں کے تسلط سے حقیقی آزادی حاصل کرسکیں ۔۔۔۔
    ململ شعور کے ساتھ ہم یہ سمجھتے ہیں تمام کاموں سے پہلے یہ کام ضروری ہے پورا زور لگا کر اپنی عوام کو میڈ ان پاکستان پر لانا چاہئے پاکستان کیلئے پاکستانیوں کیلئے اپنے لئے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے ضروری ہے پاکستانی میڈ ان پاکستان اشیاء کا استعمال کریں ۔۔۔۔
    اس مقصد کے حصول کیلئے نصاب تعلیم میں باقاعدہ مضامین شامل کئے جائیں جن میں طلبہ کو اس مسئلہ کی حساسیت سمجھائی جاسکے اور وہ عملی میدان میں اترنے کے بعد خود غرضی کا شکار ہوکر غیروں کے آلۂ کار بننے کے بجائے محب وطن اور مفید شہری بن سکیں ۔۔۔۔
    علماء اور مساجد کے خطیب حضرات اس مسئلہ میں بہت زیادہ معاونت کرسکتے ہیں ان کی باقاعدہ ورکشاپس کروائی جائیں تاکہ وہ میڈ ان پاکستان کو ایک قومی و ملی مسئلہ سمجھ کر اپنے متعلقین کو قائل کرسکیں ۔۔۔۔
    میڈیا ( پرنٹ الیکٹرانک سوشل ) کو عوامی شعور کی بیداری کیلئے بھرپور طور پر استعمال کیا جائے تاکہ عام پاکستانی جان سکے کہ اس کا حقیقی نفع نقصان کہاں پر ہے ۔۔۔۔۔

    امید ہے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر لکھی گئی اس تحریر کو آپ تحریک بنا کر آگے چلائیں گے پاکستان اللہ کا انعام ہے اس انعام کی قدر اسی طرح ممکن ہے کہ اسے ہر طرح سے غیر ملکی تسلط سے آزاد کروایا جائے

    پاکستان زندہ باد
    پاکستانی قوم پائندہ باد

  • جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اثاثے چھپانے کا معاملہ، اسسٹنٹ کمشنر انٹرنیشنل ٹیکسز زون کا خط منظر عام پر آگیا

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اثاثے چھپانے کا معاملہ، اسسٹنٹ کمشنر انٹرنیشنل ٹیکسز زون کا خط منظر عام پر آگیا

    سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ایک طرف اپنے غیر ملکی اثاثے چھپانے کا الزام ہے اور اسی سلسلہ میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے تو دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر انٹرنیشنل ٹیکسز زون کا 10مئی2019 کو کمشنر آئی آر کو لکھا گیا خط بھی منظرعام پر آگیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لندن میں موجود اپنے بیوی بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کئے۔

    باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق خط میں لکھا گیا ہے کہ مس زرینہ عیسیٰ جو کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہیں نے 2014ءکو جمع کروائی گئی ٹیکس سٹیٹمنٹ میں لندن میں موجود اپنی جائیداد کو ظاہر نہیں کیا ۔ اسی طرح لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس بات کے پابند تھے کہ وہ”سیکشن گیارہ بی کے تحت“ غیر ملکی اثاثے جو ان کے بیوی بچوں کے نام ہیں، انہیں ریکارڈ پر لاتے اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں اپنے کل اثاثوں اور ان کے اخراجات کتنے ہیں، انہیں ظاہر کرتے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

    اسسٹنٹ کمشنر ٹیکسز زون کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ مس زرینہ عیسیٰ اور ان کے بیٹے نے بھی 2014ءسے 2018ءتک ٹیکس ریٹرن میں اپنی اس جائیداد کا ظاہر نہیں کیا ہے۔اس سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ قانونی طور پر اس امر کے پابند تھے کہ وہ ٹیکس ریٹرن میں اپنے اثاثے چھپانے کی بجائے انہیں ظاہر کرتے مگر خودان کے اور ان کی بیوی کی جانب سے لندن میں موجود اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا گیاہے۔

    خط میں لکھا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو 5 اگست 2019ءکو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر منتخب کیا گیا۔ درج بالا اثاثہ جات میں ایک جائیداد کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2011 میں بنایا جبکہ بقیہ دو 2013 سے اب تک حاصل کی گئیں۔ 2011 سے اب تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے آ رہے ہیں تاہم بتدریج اپنے اثاثہ جات کو چھپاتے چلے آ رہے ہیں۔ جو کہ ITO 2011 کے سیکشن 116 ایک بی کے تحت جرم ہے جبکہ وہ قانونی اور عدلیہ قوانین کے تحت اپنے اثاثہ جات ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں اپنے اثاثہ جات فائل کرتے ہوئے بھی درج بالا اثاثہ جات ظاہر نہ کئے۔تاحال اتنے مہنگے اثاثہ جات کے حصول کے ذرائع کا ادراک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس امر کی وضاحت کی جا سکی ہے کہ درج بالا اثاثہ جات منی لانڈرنگ کے تحت حاصل ہوئے یا نہیں۔یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس میں ان پر لندن میں ان کے بیوی ، بچوں کے نام اثاثے چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

    ادھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس سلسلہ میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ کر اپنے اوپر لگائے گئے الزاما ت کی واضح طور پر تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی کردار کشی کی کوشش کی جارہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں سوال کیا ہے کہ جناب صدر کیا میرے خلاف شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں افشا کرناحلف کی خلاف ورزی نہیں، کیا میڈیا میں مخصوص دستاویزات لیک کرنا مذموم مقاصد کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اسی طرح خط میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی اور میرا جواب آتا، میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی، حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں، کیا یہ مناسب رویہ اور آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ لندن میں‌ جائیدادیں ان کے نام پر ہیں جو اس کے مالک ہیں اور ملکیت چھپانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی، جائیدادیں کسی ٹرسٹ کے ماتحت نہیں نہ ہی کبھی کوئی آف شور کمپنی قائم کی گئی۔ صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جب سے انہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا وہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے خلاف انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کوئی شکایت موجود نہیں نہ ہی ان کے خلاف انکم ٹیکس کی کوئی کارروائی جاری ہے۔

  • سرکاری خرچ کا معاملہ یا کچھ اور؟ شریف فیملی کے کسی ایک فرد نے بھی رمضان میں عمرہ کی سعادت حاصل نہیں کی

    سرکاری خرچ کا معاملہ یا کچھ اور؟ شریف فیملی کے کسی ایک فرد نے بھی رمضان میں عمرہ کی سعادت حاصل نہیں کی

    پاکستان میں شریف فیملی سے اس وقت صرف میاں نواز شریف جیل میں ہیں لیکن ذرائع کے مطابق رمضان المبارک کے مقدس ایام میں اس مرتبہ شریف فیملی میں سے کسی ایک فرد نے بھی عمرہ کی سعادت حاصل نہیں کی۔

    باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں ہر سال شریف فیملی کے کئی افراد حج و عمرہ کیلئے سعودی عرب پر جاتے ہیں اور یہ ہر سال کا معمول رہا ہے تاہم اس مرتبہ جیل میں تو صرف سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ہیں لیکن شریف فیملی کا کوئی ایک فرد بھی ماہ مبارک میں عمرہ پر نہیں گیاجس پر حیرانگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر اس سلسلہ میں زبردست بحث جاری ہے کہ کیا حج و عمرہ صرف سرکاری خرچ پر ہی کرنا چاہیے؟۔ کیا شریف خاندان کے لوگوں کے پاس پیسہ کی کمی ہے کہ اقتدار میں نہ ہوں تو عمرہ و حج کیلئے جانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے؟۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین کا کہنا ہے کہ امسال چونکہ شریف فیملی کو سرکاری وسائل حاصل نہیں تھے اس لئے رمضان میں ان کا کوئی فرد عمرہ کیلئے نہیں گیا۔

  • میں کھلاڑی تو اناڑی …. فرحان شبیر

    میں کھلاڑی تو اناڑی …. فرحان شبیر

    آج کل کھلاڑیوں کا مقابلہ اناڑیوں کے ساتھ پڑا ہوا ۔ شور اتنا ہے کہ رگ رگ میں محشر برپا ۔ ارے روکو، پکڑو یہ دیکھو اناڑی اور اسکی اناڑیوں کی ٹیم کیا کر رہی ہے ، ہائے کاروبار کو جان کر رہے ہیں ۔ یہ ملک ڈبو رہے تباہ کررہے ہیں ۔ پیاز کی پرتوں کی طرح کھل رہے ہیں برف کی باٹ کی طرح پگھل رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ
    جب تک کھلاڑی حکومت میں تھے سارے دانشوڑ ٹریڈ ڈیفیسٹ کے خطرناک حد تک بڑھنے ، امپورٹ میں پانچ سالوں تک ایک ڈالر تک اضافہ نہ ہونے ، ڈیٹ ٹو جی ڈی ریشو ریڈ لیول کراس کر جانے تک کی خبروں کو ایک آنکھ پر ہاتھ رکھ کر پڑھتے رہے دوسری آنکھ کے سامنے ہمیشہ اشتہارات نظر آتے تھے لہذا معیشت پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہوتا تھا ۔ ہائے یہ اگر اس وقت اپنے کیلکولیٹر نکال لیتے تو شاید اسوقت اتنی بھک منگی صورتحال نہ ہوتی ۔ یہ سیانے گرگئے تھے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔

    کھلاڑی اتنے فنکار تھے کہ آنے والی حکومت کے ہاتھ پاوں باندھنے کے لئیے جاتے جاتے کمال ڈھٹائی کے ساتھ آنے والے سال بجٹ تک خود بناکر گئے ۔ جس میں ریونیو کی قربانی کر کے مختلف طبقات کو ٹیکسز کی چھوٹ دے کر نوازا گیا ۔ تاکہ آنے والی حکومت ریونیو کلیکشن کا ہدف پورا کر ہی نہ پائے ۔ سب کو خوش کرنا تھا لہذا سیلیریڈ پرسن کے ٹیکس کی شرح سے لیکر slabs تک ریلیکس کر کے چلے گئے ۔ بظاہر عوام کو اچھا لگا کہ حکومت نے ریلیف دیا لیکن یہ ریلیف حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کا شاخسانہ تھا ۔

    پھر اس ٹیم کے سب سے بڑے کھلاڑی اسحاق ڈار کا کارنامہ غلط اعداد و شمار پیش کرنا تھا ۔ ملکی قرضوں کی تفصیل 2016 میں آن ریکارڈ اسمبلی میں غلط جمع کرائی ، فارن ریزرو کے حوالے سے جھوٹ ، بانڈز کے اجرا اور انکی شرح منافع پر جھوٹ ، پاور کمپنیز کی ادایگیوں کے بارے میں جھوٹ ، حتی کہ ملکی اثاثے کی گروی رکھے جانے کی ڈیٹیل بھی غلط اور جھوٹ کہ آج پتہ چل کر حکومت کے ہوش آڑ رہے ہیں ساورن گارنٹیز کی مد میں ہی ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ چڑھا دیا کھلاڑیوں نے ۔ حالانکہ ان کھلاڑیوں نے سب سے پہلا چونا ہی قرض اتارو ملک سنوارو نعرے سے لگایا تھا ۔
    پھر جاتے جاتے اک ہور وڈے کھلاڑی ، پندرہ بیس سالوں میں تیزی سے ترقی کرتی ائیر لائن ائیر بلو کمپنی کے مالک، شاہد خاقان عباسی صاحب، خزانے پر ایسی جھاڑو پھیر کر گئے کہ آنے والوں کے پاس ایک پیسہ نہ رہے ۔ چودہ سو سے سولہ سو ارب روپے تک کی ادئیگیاں کرکے گئے ۔ جن ایکسپورٹرز کو پانچ سال ریبیٹ کے لئیے رلایا انہیں بھی کچھ ادئیگیاں اسی دور میں ہوئیں ۔ پھر ادئیگیاں ہی نہیں عباسی صاحب نے تو ایک ارب روپیہ الیکشن سے پہلے وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ سے نکال کر اپنے بیٹے کے کے حوالے کر دئے، قوم کے ان پیسوں سے جو صوابدیدی فنڈ میں ضرورت مندوں کی مدد کے لئیے ڈالے جاتے ہیں عباسی صاحب کے حلقے کے لوگوں کو عمرہ پیکج دیا گیا ۔ کیا یہ اندھے تھے جو خزانے کی خانہ خراب حالت نظر نہیں آرہی تھی یا واقعی آنے والی حکومت کو ہر حالت میں کانا کرنا تھا ۔

    ادھر پنجاب گورنمنٹ کے کھلاڑیوں نے اپنی تصویروں اور شہزادے شہزادیوں کی پروجیکشن پر میڈیا بھر میں 430 ارب روپے کے ادھار اشتہار چلا دئیے کہ دیتے رہینگے آنے والے ۔ ورنہ تو میڈیا جانے اور نئی حکومت ۔ میڈیا خود ہی قدموں پر جھکا کر اپنے پیسے نکال لے گا ۔ ۔ واہ یہی تو کھلاڑی پن ہوتا ہے ۔ اپنی ہینگ لگے نہ پھٹکری عوام کے پیسوں سے پبلسٹی کا ڈھول بجاو اور سیاست میں رنگ بھی چوکھا لاو ۔ اب یہی 430 ارب روپیہ اس نئی پنجاب گورنمنٹ کے گلے پڑ گیا ۔ انہی پیسوں کا نہ دینا ہی تو ہے جو میڈیا پر ہر صافی و ناصافی اناڑی اناڑی کی گردان لگائے ہوئے ہے ۔ کسی کو چائے کے نہ پوچھے جانے کا غم ہے تو کسی کو اپنی بے قدری کا ۔ یہ کھلاڑیوں کی عنایت خسروانہ کا فیضان ہے جو آج بڑے بڑے دانشوڑ عمران خان کو ناکام ٹہرانے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔

    مسلہ یہ ہے یا تو یہ بے چارے معیشت جانتے نہیں اور اگر جانتے تو کھلاڑیوں سے دو چار Basic سے سوال کبھی نہ کبھار تو ضرور پوچھتے ۔ کیونکہ سوال تو یہ بنتا ہے کہ دو ارب ڈالر کے ٹریڈ ڈیفیسیٹ کو بیس ارب ڈالرز تک پہنچانے پر اسحاق ڈار کو اچھا تو کیا صرف معیشت دان بھی کیسے گردانا جاسکتا ہے اتنا تو ایک منشی بھی سمجھتا ہے آمدنی اٹھنی اور خرچہ ایک روپئیا اور جو گدھے اس ٹریڈ ڈیفیسٹ میں نو ماہ میں ہی 30 فید کمی لے آئے وہ آپکی نظر میں کیسے اور بھلا کس طرح اناڑی ہیں ۔

    اناڑیوں نے PIA کا loss روک دیا واہ بھئی واہ بڑے زبردست اناڑی ہیں ۔ کھلاڑیوں کو تو شرم آنی چاہئیے کہ پی آئی اے کے نام پر دس سالوں سے ری ویمپنگ ری ویمپنگ کا شور مچانے کے باوجود بھی خسارہ 400 ارب پر پہنچا دیا ۔ جو کہ جمہوریت کے بہترین انتقام کے سب سے بڑے کھلاڑی زرداری کے دور میں شاید 200 ارب تھا ۔ دماغ گھوم کر رہ جاتا ہے کہ آج کے اس دور میں بھی پی آئی اے پر حاضری یا attendance ہاتھ سے رجسٹر میں لکھی جاتی تھی ان بچوں نے اٹیینڈنس کا سسٹم Thumb والا کیا جو آج کے چورن چٹنی بیچنے والوں نے بھی کرالیا ہے ۔ کیا عباسی صاحب کی اپنی ائر لائن ائیر بلو میں بھی اٹینڈینس کا یہی نظام ہوگا اسکا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں ۔

    اور کیا گنوائیں کھلاڑیوں کی فنخاریاں ؟ چلو یہ ہر وقت کھلاڑی اناڑی کا شوڑ مچانے والے دانشوڑ ہی کسی ایک ادارے کا ، بس صرف کسی ایک ادارے کا نام بتا دیں جسے ان مہان کھلاڑیوں نے خسارے سے نکال کر منافع میں لایا ہو ۔ کوئی ایک ادارہ ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے ملکوں کے ادارے نہیں کما رہے تھے ۔ Emirates ائیر لائن ہماری PIA کو منہ چڑاتی چڑاتی دنیا کے آسمانوں پر چھا گئی ۔ اور اسکی انگلی پکڑ کر اڑانے والی پی آئی اے اپنے بال و پر نچتے دیکھتی رہی ۔

    اسٹیل مل تباہ حال ، جالے پڑھ گئے ۔ وہ اسٹیل مل جو ہماری آج کی امپورٹ بل کی کئی ادائگئیوں سے نجات دلا جو آج ہم اسٹیل کی امپورٹ کی صورت میں لاد رہے ہیں ، ایک بوچھ بن گئی ہے ۔ اسکے ایمپلائز کی تنخواہیں بھی یہ اناڑی کلئیر کر رہے ہیں کہ وہ چلے تو آنے والے دنوں میں چار پیسے بھی کمائے ۔ کوئی سوچ سکتا یے کہ جس ملک میں CPEC سے لیکر دیگر بڑے بڑے پراجیکٹس میں اسٹیل کی بے تحاشہ کھپت ہو، چائنا سے لیکر ملک کی دیگر اسٹیل ملز سے حکومت کو اسٹیل کی Buying کرنا پڑھ رہی ہو اسکی اپنی خود کی سمندری جیٹی رکھنے والی اسٹیل مل سسک سسک کر گھٹ گھٹ کر دم توڑ رہی ہو مسلسل خسارے میں چلانی پڑھ رہی ہو لیکن ریاض لال جی سے لیکر شریفوں کی اپنی اسٹیل فیکٹریاں فولاد پہ فولاد ڈھالے جارہی ہوں ۔ ہذا من فضل ربی ۔ اپنی فیکٹری میں ایک مزدور اضافی نہ رکھو ۔ PIA، اسٹیل مل ، OGDCL , PPL ,M اور ان جیسے سارے کماو پوت اداروں کو بھر دو سیاسی کارکنوں سے ، مس مینیجمنٹ کے ذریعے ڈس انٹیگریٹ کرا دو تباہ کرا دو ۔ اور بعد میں اسکریپ بھی نہ چھوڑو ۔

    اسی پاکستان میں ہم دیکھ رہے تھے کہ کورئیر سروسز کے میدان روز روز نئی کمپنیاں نمودار ہورہی تھیں ۔ چیتا ، لیپرڈ، ٹی سی ایس ، DHL ، پھر ڈائیئوو والوں کی بھی کارگو ہینڈلنگ ، پھر ٹرک ٹرالر سے کارگو ہینڈلنگ الگ بزنس ۔ 2۔2 بلین ڈالرز کی کارگو ہینڈلنگ مارکیٹ سے ساری یہ پرائویٹ کمپنیاں اپنا اپنا حصہ وصول کر رہی تھیں وہیں ہمارا اپنا Pakistan post ” ڈاکیا ڈاک لایا ڈاکیا ڈاک لایا والے” سسٹم میں پھنسا ہوا تھا ۔ کسی کھلاڑی کو کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ پاکستان پوسٹ کے گاوں گاوں دوردراز کے علاقوں تک بنے بنائے اس سسٹم کو ذرا سا اپ گریڈ کر کے، ڈیجیٹلائز کرکے اور موبائل ایپس پر لاکر کچھ کما کر ملک کے خزانے میں تھوڑا کچھ پیسہ ڈال بھی دیں ۔ اب یہی ” اناڑی” اسی پاکستان پوسٹ کو ڈیجیٹل مارکیٹ میں لے آئے ۔ منی ٹرانفسر کی سہولیات سے موبائل بینکنگ انڈسٹری میں سے بھی اپنا شئیر لیا اور ساتھ میں سامان کی زیادہ ترسیل سے کام بھی زیادہ ہوا ۔6 ارب کا منافع ہوگیا پاکستان پوسٹ کو ۔ یہ آگے اور زیادہ ہونا ہے کیونکہ Cpec کی صورت میں اس پورے خطے میں ٹرانسپوٹیشن سیکٹر میں بیس فیصد کا اضافہ ہوگا ۔ تبھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روٹھی ہوئی ائیر لائینز پھر سے پاکستان واپسی کے روٹس کھول رہی ہیں ۔

    مجھے یہ بھی حیرانی ہوتی ہے کہ مُحَمَّد بن سلمان بھی بے وقوف تھا کہ اس نے کہا کہ وہ عمران خان وزیراعظم بننے کا انتظار کرہے تھے ۔ زمانے کے سرد و گرم دیکھے ہوئے ملائیشیا کے قابل احترام وزیراعظم مہاتیر مُحَمَّد بھی غالبا عقل سے پیدل ہوگئے ہیں بقول نارووال کے ارسطو ” اناڑی کے ہاتھ استرا دیکھ کر بھی سنبھل نہیں رہے جو بھاگ بھاگ کر دامے درمے سخنے پاکستان میں انویسٹمینٹ کے پلان لیکر آرہے ہیں ابھی کل ہی کویت نے 22 ارب ڈالرز کی انویسٹمینٹ کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ 2 لاکھ 20 ہزار فی یونٹ کے لحاظ سے آسانی سے بنائے والے گھروں کی اسکیم تک لانچ کرنے کا ارادہ ظاہر کرہے ہیں ۔
    پھر سب بڑھ کر کیا یہ چین کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ” او تیری تو۔۔۔ لٹ گئے۔۔ برباد ہوگئے۔۔۔ یہ پاکستان میں کون اناڑی آگئے۔۔۔ یہ کس کے ہاتھوں میں استرا آگیا ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں تو چین کا عالم یہ ہے انہی اناڑیوں کے وزیراعظم کو دورے پر بلا کر پاکستان کو آسیان ممالک ( ملائشیا ، ویٹ نام وغیرہ ) کی طرح کا ڈیوٹی فری معاہدہ کرلیتا ہے کہ ” چل جانی 313 پراڈکٹس ڈیوٹی فری لے آو ” ۔ اس میں پاکستان اگر صرف گارمنٹس میں ہی فوکس کر لے تو وہ ہی اپنے کو کافی ہے بھائی ۔ ایک تو پاکستان کی بہترین کپاس ، ہمارا پہلے سے ٹیکسٹائل میں برسوں کا تجربہ اور ابھی بھی انسٹالڈ اینڈ ان پلیس انڈسٹری اور تیسری اور سب سے بڑی بات چین کی کپڑے کی پوری مارکیٹ ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ چین سالانہ 625 ارب ڈالرز کے کپڑے ، گارمنٹس اور اس سے متعلقہ آرٹیکلز import کرتا ہے یعنی دنیا سے خریدتا ہے تو اب ہمارے پاکستانی گارمنٹس ایکسپورٹرز کے لئیے سوا ارب لوگوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ کھل گئی ہے ۔ جوکہ بہت بڑی اپرچونٹی ہے پاکستان کے لئیے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کے لئیے ۔ کیونکہ ٹیکسٹائل فارن ایکسچینج کے ساتھ لیبر فورس کو کھپانے میں بھی نمبر ون سیکٹر رہا ہے پاکستان کا ۔

    میں حیران ہوں کہ یہ اچھے اناڑی ہیں جو ٹیکس کی دنیا کا معتبر ترین نام شبر زیدی کو لے آتے ہیں ایف بی آر کو سنبھالنے کے لئیے ۔ جس نے آتے آہی پاکستان کی معیشت کی خرابی کی روٹ کاز کو ختم کرنے کے لئیے کام شروع کردیا ۔ یعنی معیشت کی ڈاکومینٹیشن ۔ بلیک اکانومی جب سامنے ائیگی تب ہی پاکستان کی معیشت بھی سدھرے گی ۔ ہاں جہاں تک بات آئی ایم ایف کے معاہدے کی ہے تو اس منزل تک نوبت نہ پہنچنے کی ہم نے بھی بہت دعا کی تھی لیکن” بیگرز آر نوٹ چوزرز” والی بات کہ اگر پچھلوں نے اس حال میں چھوڑا ہوتا تو کچھ اکڑ بھی دکھاتے ۔ وہ تو ابتدائی بھاگ دوڑ رنگ لائی دوست ممالک بروقت آگے بڑھے اور یوں پچھلے ایک سال میں پندرہ سولہ ارب روپیہ اسی پاکستان بچاو مد میں آگیا ۔ یہ تھوڑی بہت اکڑ اور بھاگ دوڑ ہی کام آگئی کہ آئی ایم ایف کا شکنجہ اتنا سخت نہیں جتنا پہلے لگنے کا امکان اور رویوں کا پلان تھا ۔ تھوڑا اطمینان یہ تسلی دیکر بھی ہوا کہ امریکہ ہی کے نہیں روس اور چین کے بھی آئی ایم ایف میں شئیرز ہیں ۔ لہذا وہ بھی اب آئی ایم ایف کو اپنا گندہ کھیل کھل کر نہیں کھیلنے دینگے ۔
    اپنا کہنا تو یہ ہے اناڑی ٹن کے لگے رہیں دو چار اناڑیوں نے بھی کام دکھا دیا تو قوم کی ان کھلاڑیوں سے جان چھوٹ جائیگی جو ملک کے لئیے نہیں اپنی سینچریاں بنانے کے لئیے کھیلتے رہے اور قوم کی جان بھی ایسے کمنٹریٹروں سے چھوٹ جائے جنہوں نے مداریوں کو کھلاڑی بتا بتا کر قوم کو چونا لگائے رکھا ۔

  • تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پے …فرحان شبیر

    تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پے …فرحان شبیر

    تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پے ۔
    پاکستان اور بھارت ایک ساتھ ہی آزاد ہوئے اور ایک ساتھ ہی دنیا کے نقشوں پر نمودار ہوئے ۔ پاکستان بنانے والوں پر مذہب کا استعمال کرنے کا طعنہ کسا جاتا رہا جبکہ بھارت والوں کے سیکولرازم اور ہندو نہیں بلکہ انڈین نیشنلزم کی مثالیں دیں جاتی رہیں کہ ہندوستان میں سارے انڈین ہیں نو مسلم ، نو عیسائی ، نو ہندو وغیرہ وغیرہ ۔
    چلو اب مودی کی فتح نے کچھ باتیں تو کلئیر کردیں کہ مسلمان چاہے ادھر کا یا ادھر کا یا مشرق وسطی کا ، بھلے کتنا ہی چول بنا رہے کتنا ہی اپنے دین سے لاتعلق رہے اسکا وجود ہی دل دشمناں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہیگا ۔ دو قومی نظریہ کل بھی درست تھا آج بھی تر و تازہ ہے ۔ بانیان پاکستان نے اسے بہت پہلے محسوس کرلیا تھا اور ہندو کے دانتوں سے چھین کر مسلمانوں کو ایک ملک لیکر دیا ۔ بہت کہا جارہا تھا کہ ہندوستانیوں کو لگ پتہ گیا ہے لہذا اب وہ مودی کی مذہب کی سیاست کا چورن نہیں پھانکیں گے لیکن چشم فلک کی آنکھ نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ خود کو سیکولر کہلانے والے ملک میں ہندو دھرم کا علم لہرائے نریندر مودی اور امیت شاہ جیسے کٹر مسلم دشمن رہنما اپنی قوم سے پہلے سے زیادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہوگئے ۔

    یہ تو ہمارے ہاں کا اندھیرا ہے جس میں ادھر والوں کو پتہ ہی نہیں کہ آس پاس میں ہو کیا رہا ہے ۔ کس طرح پورے کا پورے بھارت ہندو انتہا پسندی کے نرغے میں آکر ہندوستان بنتا جارہا ہے یا بنگلہ دیش میں پاکستان کا نام لینے والوں پر کس طرح زمین تنگ کی جارہی ہے ۔ یا اسرائیل کے حالیہ الیکشن میں ایک طرف جیتنے والا کٹر یہودی نیتھن یاہو اور دوسری جانب ہارنے والا اس سے بھی کٹر یہودی انکا سابق آرمی چیف تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح میں بھی یہاں زیادہ سے زیادہ وائٹ ریسسزم کو ہی دیکھا گیا حالانکہ اس کی بھی فتح میں ایک بہت بڑا کردار ایونجیلیکلز کرسچین اور امریکی زائینوسٹ نظریات کے حامی jews کا ہے ۔
    میرے ہاں تمہارے چاہنے والے ، بھارت نواز حلقے قوم کو ہمیشہ تمہارا ایک نقلی چہرہ ہی دکھاتے رہے ۔ اور جس کسی نے بھارتی لابی ، Raw کی کاروائیوں ، بنگلہ دیش بنانے کی سازشوں ، بلوچستان میں را کے کلبھوشن نیٹ ورک کے عزائم ، کے پی کے میں پہلے ٹی ٹی پی اور اب پی ٹی ایم کر بات کی اسے اسٹیبلشمنٹ کا حواری، بوٹ پالیشیا ، غیرت بریگیڈ ، انڈین فوبیا کا شکار اور آسان الفاظ میں جمہوریت کا دشمن قرار دے کر نکو بنا دیا ۔ حالانکہ سری لنکا، بنگلہ دیش ، افغانستان اور بشمول میرے (پاکستان تک میں ) ہندوستان کی خفیہ اور اعلانیہ سامراجی کاروائیوں کی ایک تاریخ گواہ ہے ۔ خدا کا شکر ہے آج انٹرنیٹ کی وجہ سے دوسرے ممالک کے رائٹرز اور صحافیوں کے مضامین اور کتابیں بآسانی مل جاتے ہیں اور میرے لوگوں کو بھی حال سے لیکر ماضی کو سمجنے میں مدد مل جاتی یے ۔

    بھارت کا آرمی چیف بپن راوت آج بھی دھڑلے سے کہتا ہے کہ ” پاکستان سیکیولر شناخت اپنا لے تو سب ٹھیک ہو جائگا” جبکہ میرے ہاں آج بھی احباب بھارت کا ذکر کرتے ہوئے پردہ دار بیبیوں کی طرح شرما کر رہ جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں مودی کی جیت یا اسرائیل میں نیتھن یاہو کو پھر سے اقتدار مل جانا ، کبھی انکی نظروں سے نہیں گذرتا کبھی انکے کان کھڑے نہیں کرتا ۔ پی ٹی ایم کے مسائل کا رونا رونے والے کسی لبڑل کو کشمیر کا دکھ نظر نہیں آئیگا اور کشمیر و فلسطین کو گھر کے باہر کا مسلہ قرار دینے والا وہی لبڑل پیرس کے سانحے پر ڈی پیاں رنگین کرتا نظر آئیگا ۔ انکی نظر میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اخبار کا جمال خاشگجی شہید صحافت اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کرتوتوں سے پردہ اٹھانے والا جولین اسانج NOBODY ہوتا ہے ۔

    ان دانشوڑوں نے کبھی بھارتی لیڈروں کے اندر برسوں سے بلبلاتے پاکستان دشمنی کے ازلی کیڑے کو نمایاں کیا نہ اسکی خفیہ ایجنسی Raw کے کردار کو موضوع بحث بنایا ۔ سارک کا پورا خطہ بھارت کے مذہبی انتہا پسند لیڈروں کے اکھنڈ بھارت کے جنون میں تباہ ہورہا ہے لیکن ہمارے ہاں ایک طبقہ ہمیشہ سے را کی دی امن کی آشا کی بانسری بجاتا آرہا ہے ۔ نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی سے جتنی جلدی ہو سکے میرے پاکستانیوں کو کچھ سبق سیکھ لینا چاہئیے ۔

    ایک تو یہ مذہب کی بنیاد پر سیاست آج بھی ہورہی ہے سو سال پہلے بھی ہورہی تھی اور سو سال بعد بھی ہوتی رہیگی ۔ یہ غلط ہے یا صحیح اس میں آرا ہو سکتی ہیں لیکن دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ سے لیکر مڈل ایسٹ میں نیتھن یاہو کی جیت تک اور ادھر برازیل میں بولسینیرو کی جیت سے لیکر بھارت میں نریندر مودی تک مذہب کی بنیاد پر ہی سیاست ہورہی ہے ۔ آپ جتنا اپنے ملک میں اسلام کو سائڈ لائن کرا لیں لیکن آج بھی اسرائیل ہو یا بھارت مسلم دشمنی کا نعرہ بکتا ہے ۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کا جھنڈا لیکر ساری غیر مسلم دنیا کو اپنا دشمن گردان کر نفرت کرنا شروع کردی جائے ۔ یہ ایک مسلمان کے شایان شان ہی نہیں ہے ۔ لیکن دشمن کی سازشوں سے غافل رہ کر اپنا سروائول بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا مسلمانوں اور پاکستانیوں کو بھی متحد اور متفق ہونا پڑیگا ۔ ورنہ جو حال پچھلے بیس سالوں میں افغانستان ، عراق ، لیبیا ، شام وغیرہ میں ہوچکا ہے وہی ایران ، پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔

    بھارت جو نہرو کے دور میں غیر وابستہ ممالک کی تحریک کا رکن اور سیکولر مزاج رکھتا تھا آج مودی کے رنگ میں گیروا ہوچکا ہے اور ہندووانہ تعصب میں پاکستان دشمنی کی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے ۔ اور جب نہرو جیسے سیکولر کہلوانے لیڈر کی بیٹی بنگلہ دیش بنانے کا کریڈٹ لیتے ہوئے دو قومی نظریے کی ناکامی کا اعلان کرتی ہے تو پھر مودی جیسی کٹر ہندوانہ ذہنیت رکھنے والے لیڈر سے کیا توقع نہ رکھی جائے ۔ بھارت پہلے بھی پاکستان کے دو ٹکڑے کر چکا ہے اور آج بھی مذید ٹکڑے کرنا چاہتا ہے ۔ پہلے را نے مشرقی پاکستان میں اپنا کھیل کھیلا اور میرا ایک بازو کٹ کر جاگرا ۔ جرنیل اور سیاستدان دونوں اس کھیل میں شامل رہے اور قوم 65 کی کامیابی کے خمار میں سوئی پڑی رہی ۔

    اب ایک دفعہ پھر وہی کھیل کھیلا جارہا ہے جب سے چین گوادر میں انٹرسٹد ہوا ہے تب سے بلوچستان توڑ کر فری بلوچستان اور کے پی کو توڑ کر افغانستان میں شامل کرنے کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں ۔ مڈل ایسٹ کی ری اسٹرکچرنگ کی طرح پاکستان کی کانٹ چھانٹ بھی pantagon سے لیکر اسرائیلی اور بھارتی ملٹری آفیسز کی ٹیبلوں پر نہ جانے کب سے دھرا ہے ۔ اور اس میں امریکہ اسرائیل اور بھارت تینوں کا انٹرسٹ ہے ۔ کیونکہ مڈل ایسٹ کی ری اسٹرکچرنگ سے اسرائیل کے گریٹر اسرائیل بننے کے خواب کے راستے میں بھی پاکستان ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ پاکستانی اسلام سے کتنا ہی دور ہوجائے ، کٹ مر جائگا لیکن مکہ یا مدینہ پر کسی کا آنکھ اٹھانا بھی برداشت نہیں کریگا کیونکہ وہ عربوں کے نہیں اسکے خدا اور رسول کے گھر ہیں اور کچھ بھی ہو پاکستان بحرحال ایک ایٹمی اور بہترین لڑاکا قوت تو ہے۔ لہذا پہلے تو پاکستانی کے بدن سے روح مُحَمَّد کو نکالا جائے پھر اسکے ڈیفنس کو ختم کیا جائے ۔

    اسی طرح دنیا میں خود کو ایک کھلاڑی منوانے سے پہلے بھارت کو ساوتھ ایشیا میں اپنے آپکو کھلاڑی منوانا ہے اور پاکستان گرتے پڑتے بھی بھارت کا یہ خواب پورا ہونے نہیں دے رہا ۔ لہذا بھارت کے خواب کی تکمیل کے لئیے پڑوسی ریاستوں اور بالخصوص مسلم پاکستان اور بنگلہ دیش کا کمزور اور لاچار ہونا لازمی ہے تو پھر بھلا نیوکلئیر طاقت بننا کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ۔ جسے اب بھی شک ہے وہ ایران کے خلاف امریکی چارج شیٹ ملاحظہ کر سکتا ہے ۔ پاکستان کا چین کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی معاشی اور دفاعی خودمختاری کی طرف قدم بڑھانا امریکہ اور بھارت کو شدید اضطراب میں ڈالے ہوئے ہے جتنا تیزی پاکستان سی پیک پر دکھا رہا ہے اتنا ہی زور بھارت پاکستان میں پاکستان مخالف کاروائیوں پر لگا رہا ہے ۔

    جیسے Raw نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بنائی شیخ مجیب الرحمان پر ہاتھ رکھا ویسے ہی پاکستان میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین سے لیکر بلوچ لیڈروں اور طالبان کے مذہبی شدت پسندوں سے لیکر سیکیولر پی ٹی ایم تک سب کو دامے درمے سخنے سپورٹ کیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس جس لیڈر نے پاکستان کے خلاف ذہر اگلا اس اس لیڈر کو ہمارے لبڑلز، ہمارے دانشوڑ حضرات نے سر آنکھوں پر بٹھایا ۔ بلکہ ایک طرح سے انہیں لیڈر بننے میں مدد دی ۔ ناراض بلوچ سے لیکر ناراض بچے کہہ کہہ کر کبھی بھی انکے پروپیگنڈے کے نقائص سامنے نہیں لائے ۔ فوج سے ازلی دشمنی میں جس نے پاکستان کو گالی دی احباب نے اسے گلے لگا کر لیڈر بنا دیا ۔ پتہ نہیں حب علی ہے یا بغض معاویہ ۔

    ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی پہلے سے پایا جانے والا احساس محرومی کیش کرایا جارہا ہے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ احساس محرومی تو پاکستان کے ہر شہر میں ہے لیکن بلوچستان اور کے پی اور اسکے قبائلی علاقے اسکا بہت بری طرح کا شکار ہیں ۔ احساس محرومی کا شکار نہ ہوں تو کبھی کسی کو علیحدگی پسندانہ نظریات پھیلانے کا موقع ہی نہ ملے ۔ لیکن یہ کونسا اصول ہے کہ احساس محرومی کا ذمہ دار خالی فوج کو ٹہرا کر سیاستدانوں کو کلین چٹ دے دی جائے ۔ منظور پشتین ، محسن داوڑ ایک طرف تو نقیب محسود کی لاش پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں تو دوسری طرف راو انوار جن زرداری صاحب کا اپنا بچہ تھا انہی زرداری صاحب کی افطار میں شرکتیں کرتے ہیں ادھر محسن داوڑ اور علی وزیر فوجی چوکی پر حملہ کر کے بدامنی پھیلاتے ہیں وہیں بلاول بھٹو انہیں کلین چٹ دے دیتا ہے ۔ اسی پی ٹی ایم کی قیادت کو ناراض بچے ناراض بچے کہہ کہہ کر لاہور سے لیکر اسلام آباد تک میں جلسے جلوس کرانے کے لئیے فیسیسلیٹیٹ کیا گیا ۔ لاہور کے منظور پشتین کے جلسے کو پوری لبڑل لابی نے بڑی دلجمعی کے ساتھ گلوریفائی کیا اور پختون قوم کے درد مند بتایا ۔ حالانکہ ان سوالوں کا جواب کوئی نہیں دیتا تھا کہ جب تک فاٹا طالبان کے ہاتھوں تباہ ہورہا تھا اس وقت تو منظور پشتین کہیں کھڑا نہیں تھا اور جب قبائلی علاقوں کو مرجر کے بعد مرکزی دھارے میں لایا جارہا ہے تو یہ لر و بر افغان کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ اور اسی طرح بلوچستان کو بھی ترقی کے راستے پر آنے سے روکنے کے لئیے کوئیٹہ سے لیکر گوادر تک پھر سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
    ان نازک لمحات میں قوم کا ڈیوائڈ ہونا دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور اس وقت حال یہی ہے کہ نہ ہمیں دشمنوں کا احساس ہے اور نہ انکے عزائم کا ضرورت اس بات کی ہے پاکستانی بھی اب بھارت اسرائیل اور امریکہ کے عزائم کو سمجھیں اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئیے جت جائیں کیونکہ ملک کی مضبوطی قوم کے اتحاد کا تقاضہ کرتی ہے اور اگر قوم ہی ڈیوائڈ ہو تو اسلحے کے انبار بھی کام نہیں آتے ۔

  • وہ کیسی عورتیں تھیں

    ایک زمانہ تھا کہ عورت ان پڑھ تھی، بچوں کی کثیر تعداد ساس، سسر کے ساتھ، ساتھ نندوں اور دیوروں کی کفالت اس کی ذمہ داریوں میں شامل تھا.
    اوپر سے ایک عجیب الفطرت مرد بطور مجازی خدا اسے برداشت کرنا پڑتا تھا، مگر اس سب کے باوجود وہ محفوظ تھی، پرسکون تھی اور ڈھلتی عمر کے ساتھ وہ ایک رہنما اور سرپنچ کے عہدے تک پہنچ جاتی تھی بچوں پر حکم، فیصلے سنانے کے علاوہ سارا دن گھر داری میں گزارنے والی کو محلے کی عورتوں کے علاوہ کسی سے تعلق نہ ہوتا تھا.
    پھر زمانہ جدید ہوا عورت کا اپنے مقام کا احساس ہوا اور وہ آزاد ہونے لگی…
    سسرال تو بہت بعید اسے خاوند کی خدمت بھی ایک بوجھ لگنے لگی، اور پرائیویسی کے نام پر علیحدہ گھر کے مطالبات ہونے لگے،
    پھر زمانے نے مزید ترقی کر لی اور اس سے بھی چند قدم آگے جا کر اب عورت مکمل آزاد ہے تعلیم یافتہ ہے اور اپنی زندگی جی رہی ہے، خیر عورت کو ترقی کرنی چاہیے ضرور کرنی چاہیے میں اس کے بلکل خلاف نہیں،
    مگر……. !!
    عورت جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی جا رہی ہے اس کے رشتے کا مقابل مرد تلاش کرنا اتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ مردوں کی اکثریت حد ماسٹر ڈگری وہ بھی فارمل ایجوکیشن کے ساتھ کرنے کے بعد ملازمت ڈھونڈنے میں مگن ہو جاتی ہے، اب اس کا اگلا قدم یہ ہو گا کہ عورت ہی ملازمت کر کے گھر کی کفیل ہوا کرے گی، جبکہ مرد مکمل فارغ یا پھر کسی چھوٹی موٹی ملازمت سے بس زندگی کو دھکا دینے کی ناکام کوشش کرتا ہوا نظر آئے گا…
    یہ تو بھلا ہو میڈیا کا جس نے ابھی سے مستقبل کی تیاری شروع کرا دی، ایک اشتہار میں ایک عورت اپنے دفتر سے ویڈیو کال میں گھر بیٹھے بچے کو آ آ آ آں ں ں ں کی آواز نکال کر بچے کو منہ کھولنے کو کہتی ہے اور بچہ منہ کھولتا ہے تو اس بچے کا باپ اس کے منہ میں نوالہ ڈالتا ہے….
    ایک اشتہار میں گھر بیٹھی ماں اپنی جوان بیٹی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے جو رات کے دس بج کر دس منٹ پر گھر پہچتی ہے اور ماں کو چائے بنا کر دیتی ہے،
    عورت کی اس طرح کی آزادی ہمارے خاندانی نظام کے لیے بڑی خطرناک ہے،
    بچے_کے_گرنے_پر_ماں_کا_میں_صدقے_کہہ_کر_لپکنا،
    بچے_کے_ہر_آہٹ_پر_بے_چین_ہو_جانے_والی_ماں،
    بڑھتی_عمر_کے_بچوں_کے_لئے_فکر_مند_ماں،
    وہ_سب_کی_پسند_نا_پسند_کا_خیال_کر_کے_ہانڈی_پکانے_والی_ماں،
    #قصے_کہانیاں_اور_لوری_سنا_کر_سلانے_والی_ماں،
    غلط__کاموں_پر_ڈانٹنے_اور_چپلیں_پھینک_کر_ڈرانے_والی_ماں،
    اپنی_اولاد_کی_پرورش_میں_گم_صم_رہنے_والی_اور_اپنی_اولاد_میں_کیڑے_نکالنے
    اور_نکتہ_چینیاں_کر_کے_دل_ہی_دل_میں_خوش_ہونے_والی_ماں،

    اب_اگلی_نسل_کو_شاید_نصیب_ہی_نہ_ہو…

    کیونکہ سارا دن کی تھکی ہاری عورت رات کو کیا، کیا کرے گی؟؟
    بچے سنبھالے گی، گھر سنبھالے گی، شوہر سنبھالے گی، یا رات کو آرام کرے گی، تاکہ صبح تازہ دم ہو کے ملازمت کی ذمہ داری سنبھال سکے….؟
    میری تحریر کئی لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے مگر میں نے حقیقت لکھنے کی کوشش کی ہے، کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے، امید ہے کہیں بھی ضرب لگ گئی تو میری تحریر رائیگاں نہیں جائے گی۔

  • صحافی، انتظامیہ کا آسان ہدف۔۔۔۔۔۔۔۔

    صحافی، انتظامیہ کا آسان ہدفصحافی معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ قوموں کی تربیت کرنے، ان کی ترقی کا رخ متعین کرنے، حکومتیں بنانے اور گرانے میں قلم کا کردار سب سے زیادہ ہے لیکن آئے دن صحافیوں پر تشدد اور ہراسمنٹ کے واقعات نے صحافیوں میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے سرمایہ کاروں اور انتظامیہ کی جانب سےتیار کردہ صحافی یا وہ لوگ جنہوں نے اپنے مجرمانہ ریکارڈ کو چھپانے کے لیے صحافت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے وہ سچ لکھنے اور حقائق چھپانے کو مصلحت کا نام دے کر اپنا طرہ بلند رکھے ہوئے ہیں صحافیوں پر تشدد کے واقعات عموما سیاستدانوں، محکمہ صحت اور پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے دیکھے گئے ہیں تشویش ناک عمل تو یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے تشدد کے واقعات کی انکوائری پولیس ملازم ہی کرتا ہے ایسی صورت میں انصاف ملنا تو درکنار الٹا مدعی صحافی کو ہی مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے اور اس سارے عمل میں مندرجہ بالا مذکورہ اقسام کے صحافی مصلحت قرار دے کر ظالم کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں بس یہی وجہ ہے کہ صحافیوں پر تشدد اور ہراسمنٹ کے واقعات کو روکنے کے لیے جلد از جلد قانون سازی کے ضرورت ہے

    پاکستان پریس فاونڈیشن کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2002 سے 2019 تک صحافیوں پر تشدد کے 699 واقعات ریکارڈ کیئے گئے ہیں ان 17 سالوں میں 42 صحافیوں کو پولیس نے ہراست میں لے کر حبس بے جا میں رکھا، 22 صحافیوں کو اغواء کیا گیا ان تمام واقعات میں 185 صحافی زخمی ہوئے اور 73 صحافی پیشہ ورانہ امور انجام دیتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے

    صحافتی امور انجام دینے پر تشدد کا ایک واقعہ لیہ میں ڈان اخبار کے رپورٹر فرید اللہ چوہدری کے ساتھ بھی پیش آیا جو واضح کرتاہے کہ صحافیوں کو خود اپنے لئے انصاف کے حصول میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے فرید اللہ چوہدری نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ستمبر 2010 کے پہلے ہفتے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال لیہ میں نرسنگ سکول کی طلبات نے احتجاج کیا اور کوریج کے لیے میڈیا کو کال دی ہم پریس کلب سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچے تو نرسنگ سکول کی پرنسپل وکٹوریہ نے میڈیا نمائندگان کو اندر جانے سے منع کر دیا اور ہمیں گیٹ پر روک لیا گیا اندر طلبات کا شور تھا اس لیے ہم وہیں موجود رہے تاکہ حالات کا جائزہ لے سکیں لگ بھگ دس منٹ گزرنے کے بعد ای ڈی او ہیلتھ لیہ ڈاکٹر مختار حسین شاہ ہنگامی طور پر وہاں پہنچے اور صحافیوں کو گیٹ پر ہی چھوڑ کر طلبات کے پاس چلے گئے تاکہ مسئلہ سنا جائے اورمذاکرات کیے جا سکیں۔نرسنگ سکول کی طلبات نے احتجاج کیا کہ ہم معاملہ میڈیا نمائندگان کی موجودگی میں ہی سنائیں گی ورنہ احتجاج جاری رہے گا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجبورا ای ڈی او نے میڈیا نمائندگان کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ ہماری موجودگی میں نرسنگ سکول کی طلبات نے بتایا کہ فیئرویل پارٹی کے موقع پر ہماری پرنسپل وکٹوریہ نے ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر مختار حسین شاہ کی بیگم( جو کہ اسی سکول میں لیکچرار تھیں) کو کچھ قیمتی تحفے دیئے اور پارٹی ختم ہونے پر وہ بھاری رقم ہمارے وظیفے سے کٹوتیاں کر کے پوری کی جا رہی ہے جو کہ ہمیں نا منظور ہے

    فریداللہ چوہدری نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ہم میڈیا نمائندگان نے نرسنگ سکول کی طلبات کے بیانات قلم بند کر لیے اور میں نے اگلے دن ڈان اخبار میں تمام سٹوری چھاپ دی جس کے بعد مجھے بذریعہ فون دھمکیاں ملیں کہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا اور کچھ دستوں سے پیغام ملا کہ ای ڈی او کی بیوی کا نام چھپنے کی وجہ سے وہ غصے میں ہے اس لیے محتاط رہیں میں نے معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ تھوڑے ہی دنوں بعد ہمارے دوست عزیز عدیل علیل تھے تو ان کی تیمارداری کے لیے رات 8 بجکر 30 منٹ پر ہمراہ غلام مصطفی جونی ایڈووکیٹ اور عبدالستار علوی کے میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچا تیمار داری کے بعد خبر کے فالو اپ کے حوالے سے ڈان اخبار کے ڈیسک سے کال آئی تو میرے ساتھیوں نے مجھے فون پر مصروف چھوڑ کر آگے آگے چلنا شروع کر دیا بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے اندھیرا تھا۔ کچھ لوگ میرے قریب آئے اور مجھے پوچھا کہ کیا آپ کا نام فرید اللہ ہے میں نے جواب دیا کہ ‘جی’ تو انہوں نے مجھے پر ہلہ بول دیا اور یہی کہتے رہے کہ آج تمہیں رپورٹنگ سیکھاتے ہیں ہم آج تمہیں رپورٹر بناتے ہیں ان افراد کی تعداد 6 تھی ایک نے مجھ پر چھری سے وار کیا لیکن کپڑے کھلے ہونے کے وجہ سے چھری قمیض کےدائیں جیب پر لگی اور وہاں پھنس گئی شور شرابہ ہونے اورموٹر سائیکل گرنے پر میرے ساتھیوں سمیت سب لوگ متوجہ ہوئے اور ہماری طرف لپکے لیکن اتنی دیر میں حملہ آور بھاگنے میں کامیاب ہوچکے تھے

    فریداللہ چوہدری نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ہم نے پولیس کو کال کی اور سامان پورا کیا تو پتہ چلا کہ فرنٹ والی جیب پھٹنے کی وجہ سے جیب میں موجود 13 ہزار روپے اور موبائل غائب ہے تلاش کرنے پر موبائل تو مل گیا لیکن پیسے نہ مل سکے اس سارے واقعے کا اندراج پولیس تھانہ سٹی لیہ میں مقدمہ نمبر623/10 زیر دفعات 379/506 اور 147/148 درج کر لیا گیا ہمارے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے ہم حملہ آوروں کے نام تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس وقت کے صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب محمد یعقوب مرزا نے ملزمان نامزد کروا دیئے چونکہ ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر مختار حسین شاہ اس وقت کے ڈی سی او جاوید اقبال مرحوم کے قریبی دوست تھے اس لیے ڈی سی او کے توسط سے اس وقت کے ڈی پی او چوہدری محمد سلیم کو کہلوا کر بغیر انکوائری کےمیرا مقدمہ خارج کروا دیا گیا سارے معاملے کی سٹوری ڈان میں چھپی معاملہ گرم ہوا لیکن انتظامیہ کی ملی بھگت سے پردہ ڈال دیا گیا۔ وقت گزرتا رہا لگ بھگ 3 ماہ کے بعد علاقہ مجسٹریٹ نے خارج ہونے والے مقدمات کو دیکھتے ہوئے میرے مقدمے کا نوٹس لیا اور اپنی عدالت میں ہی اس معاملے کی سماعت کے لیے مجھے مدعو کر لیا پیش ہوکر میں نے بتایا کہ مقدمے کا اخراج میرے علم میں نہیں اور نہ ہی پولیس نے مجھے انکوائری کے لیے ایک سے زائد بار بلایا ہے اور یوں میرا مقدمہ دوبارہ کھول دیا گیا اور سماعت شروع ہوگئی

    فریداللہ چوہدری نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی مقدمے کی انکوائری چل رہی تھی کہ نرسنگ سکول کی طلبہ نے ایک بار پھر احتجاج کی کال دے دی لیکن اس بار وہ صدر بازار لیہ میں دھرنا دینے کے لیے آئی تھیں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رات کو نرسنگ سکول کی پرنسپل وکٹوریہ نوجوان طلبات کو انتظامیہ کے بڑے آفیسرز اور سیاستدانوں کی کوٹھیوں اور رہائش گاہوں پر جانے کے لیے مجبور کرتی ہے ہمیں برے کام کی دعوت دی جاتی ہے ہمیں برائی سے بچایا جائے۔ یہ یقینا بہت پریشان کن اور حیران کن خبر تھی جس نے پورے پاکستان میں کھلبلی مچادی ہر انسان ادھر متوجہ تھا اس احتجاج میں اس وقت کے پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب ایم پی اے افتخار بابر خان کھتران ، وزیر زراعت پنجاب ملک احمد علی اولکھ، مسلم لیگ ن کے ایم پی اے مہر محمد اعجاز اچلانہ سمیت بڑی بڑی سیاسی شخصیات نے طلبات کا ساتھ دیا ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر مختار حسین شاہ فورا 3 ماہ کی چھٹیوں پر چلے گئے اور یہ دھرنا صدر بازار سے ختم ہو کر پریس کلب لیہ کے سامنے مسلسل 7 دن جاری رہا بلآخر انتظامیہ نے طلبات کے مطالبات مانے اور انہیں سکول واپس جانے کے لیے قائل کر لیا گیا البتہ یہ کیس وفاق محتسب کے پاس چلا گیا

    فریداللہ چوہدری نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ معاملے کو یہاں تک پہنچتے 2 سال لگ گئے اس دوران محکمہ ہیلتھ نے نئے صحافیوں کا ایک گروپ لانچ کیااخراجات کر کے انہیں مختلف اخبارات اور چینلز کی نمائندگی لے کر دی تاکہ محکمہ صحت کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے خلاف جو صحافی خبریں لگائے اس کی تردید بھی کی جاسکے اور متعلقہ صحافی کی ذات پر کیچڑ بھی اچھالا جا سکے۔ انہیں دنوں ای ڈی او ہیلتھ کے چھوٹے بھائی سید گلزار حسین شاہ نے ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد بار ایسوسی ایشن لیہ کو جوائن کر لیااور میرے گواہ وکیلوں کو ووٹ کے لالچ پر پیش ہونے سے قاصر کر دیا گیا مجھے معاشرتی دباو پر صلح کے لیے آمادہ کیا گیا۔ میرے گواہ منحرف ہونے کے بعد میں صلح پر مجبور ہوگیا اس لیے کمرہ عدالت میں ملزمان کی جانب سے معافی مانگنے پر انہیں معاف کردیا۔ معافی کے وقت علاقہ مجسٹریٹ مسلسل مجھے سوچنے کی مہلت لینے کا کہتے رہے اور بار بار کہا کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچنے دو لیکن گواہوں کی انحراف کی وجہ سے میں مجبور تھا اس لیے معاف کر دینا ہی واحد حل بچتا تھا

    سباق صدر پریس کلب لیہ محمد یعقووب مرزا نے اس معاملے پر سماء سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صحافیوں پر تشدد اور ہراسمنٹ کے زیادہ تر واقعات انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ہوتے ہیں اس وقت ہم گواہوں کے منحرف ہو جانے کی وجہ سے عدم پیروی کاشکار ہوگئے تھے نرسنگ سکول کی طلبات والا معاملہ قائمہ کمیٹی ویمن رائٹس کے پاس چلا گیا تھا سیکٹری کے طلب نہ ہونے پر انکوائری کمیٹی کی انچارج اے این پی کی ایم این اے نے ایڈیشنل سیکرٹری کو ڈانٹ پلائی تھی اور معاملہ وفاقی محتسب کو بھیج دیا گیا تھا کیونکہ کیس بیورو کریسی کے خلاف تھا اور پیروی طلبات نے کرنی تھی اس لیے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کیپٹن (ر) رانا طاہرالرحمان نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فریداللہ چوہدری پر تشدد کا واقعہ مجھ سے پہلے کا ہے مجھے اس واقعے کے حالات و واقعات کے بارے میں علم نہیں ہے صحافیوں پر تشدد کے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں ایجنسیز کی رپورٹ کے مطابق ہمیں علم ہوتا ہے کہ اچھے اور برے صحافی کون کون ہیں آئندہ میٹنگ میں ایماندارصحافیوں کے ساتھ اچھے رویے کو زیر بحث لایا جائے گا فریداللہ چوہدری تربیت یافتہ اور منجھے ہوئے صحافی ہیں صحافیوں پر تشدد کے واقعات عموما عدم برداشت کا نتیجہ ہیں

    چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ لیہ ڈاکٹر امیر عبداللہ نے اس واقعے کی متعلق سوال پر سماء کو بتایا کہ جن دنوں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں فرید اللہ چوہدری کے ساتھ تشدد کا واقعہ پیش آیا تو ان دنوں میں میڈیکل آفیسر تھا اس لیے وہ واقعہ مکمل طور پر یاد ہے عموما لیہ کے ہسپتالوں میں صحافیوں پر تشدد کے واقعات پیش نہیں آتے یہ اس وقت اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ تھا جس پر سب حیران تھے ہماری پوری کوشش ہے اور تمام عملے کو ہدایت بھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائےکہ ہسپتالوں میں تشدد کے واقعات پیش نہ آئیں بلکہ صحافیوں کے معاملات با احسن طریقے سنے جائیں اور ان سے متعلق شکایات متعلقہ پریس کلب کو بھیجی جائیں اگر وہاں مسائل حل نہ ہوں تو قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔

    صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ عبدالرحمان فریدی نے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے سماء کو بتایا کہ صحافیوں پر تشدد اور ہراسمنٹ کے واقعات کے پیش نظر ہم اپنے صحافی بھائیوں کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں ڈاکٹرز کی جانب سے ہمارے سینئر بزرگ صحافی عارف نعیم ہاشمی پر تشدد کے واقعے پر ڈپٹی کمیشنر اور محکمہ صحت کے آفیسران سمیت ڈاکٹرز نے بھی صحافیوں سے معافی مانگی تھی مختلف این جی اوز کے تحت صحافیوں کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کرواتے رہتے ہیں انشااللہ جلد صحافیوں کی فیزیکل سیفٹی کے حوالے سے تربیتی نشست کا اہتمام کریں گے

    اسی نوعیت کا ایک واقعہ 5 اپریل 2019 کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال تونسہ میں نجی ٹی وی چینل کے نمائندے غضنفر ہاشمی کے ساتھ بھی پیش آیا غضنفر ہاشمی نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی زیادتی کیس پر ڈاکٹرز میڈیکل رپورٹ کے لیے متاثرہ بچی کے لواحقین کو گزشتہ 14 گھنٹے سے ذلیل کر رہے تھے ہم متاثرین کی کال پر کوریج کرنے وہاں پہنچے تو ہمیں ڈاکٹرز کی جانب سے گالم گلوچ اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا جب یہ سارا معاملہ ڈپٹی کمیشنر کے نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے انکوائری کمیٹی بنا دی جس نے آج تک کوئی پیش رفت نہیں کی اور معاملہ سرد خانے کی نظر ہے۔ آئے دن صحافیوں کے ساتھ تشدد اور ہراسمنٹ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر جلد ازجلد قانون سازی کی ضرورت ہے پریس کلبز کے رہنماوں کو چاہیے کہ صحافیوں کی فیزیکل سیفٹی کے حوالے سے تربیتی نشستوں کا اہتمام کریں اور صحافیوں کو اطلاعات تک رسائی کے قانون (رائٹ ٹو انفارمیشن لاء) کو استعمال کرنے کی بھی تربیت دی جائے تاکہ قانون کا اطلاق موثر ہوسکے ہر شہر کے پریس کلب کے صدر کو چاہیے کہ صحافیوں پر مقدمات اور صحافیوں کی جانب سے مقدمات کا ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے پولیس سٹیشنز حکام کے ساتھ میٹنگز کریں اور پریس کلب ممبر شپ کے لیے سکیورٹی اداروں سے سکیورٹی کلیئرنس لازمی قرار دی جائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی ہو سکے۔