کراچی، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے جوائنٹ سیکریٹری اور کراچی چارٹرڈ سٹی اینالائزنگ پراجیکٹ کے ڈائریکٹرطارق چاندی والا نے کہا ہے کہ ہیوی ٹریفک، واٹر ٹینکرز اورڈمپرز کے ڈرائیورز کو لگام دی جائے۔ عوام کی جانوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے ٹریفک پولیس اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ شہر میں دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی کے احکامات پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔

حادثات کی روک تھام کے لئے ٹریفک قوانین سے متعلق شہریوں کے لئے آگاہی پروگرام ترتیب دیئے جائیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور سزائیں دی جائیں۔ ہیوی گاڑیوں سمیت تما م وہیکلز کی رجسٹریشن یقینی اور سڑکوں کی حالت زار بہتر بنائی جائے۔ شہر بھر میں عام شاہراہوں پر و اٹر ٹینکرز اور ڈمپرز کی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ تواتر سے خونی حادثات کا باعث بن رہی ہے۔ موجودہ ٹریفک قوانین ہیوی ٹریفک کے ڈرائیوروں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اموات کی صورت میں خون بہا کی بھاری رقم مقرر کرنے سے ہی قیمتی جانوں کے زیاں کو روکا جا سکتا ہے۔

ان پڑھ ڈرائیوروں کو ٹرانسپورٹ یونینوں نے بھی بے لگام بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اربوں کی لاگت سے تعمیر شدہ لیاری ایکسپریس وے کو ہیوی ٹریفک کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جا رہا؟ ان خیالات کا اظہارطارق چاندی والا نے منگل کے روزلانڈھی میں واٹر ٹینکر سے دو بچوں کے کچلے جانے اور اتوار کے روز ناظم آباد میں ایک فیملی کے کچلے جانے کی خبروں پر رد عمل میں کیا۔ ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے طارق چاندی والا نے مزید کہا کہ کراچی میں ڈمپرز اور واٹر ٹینکرز کے حادثات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ کبھی تیز رفتار ڈمپر گاڑیوں پر چڑھ جاتے ہیں، ٹرالر موٹر سائیکل سواروں کو کچل دیتے ہیں تو کبھی واٹر ٹینکرز کے اناڑی ڈرائیورزکارسواروں، موٹر سائیکل سواروں یہاں تک کہ پیدل چلتے راہگیروں کو کچل کر ہلاک کر دیتے ہیں اور موقعہ سے فرار بھی ہو جاتے ہیں۔

ہر سال ہزاروں انسان ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں،جس میں سے سینکڑوں واٹرٹینکرز اور ڈمپرز سے ہلاک ہوتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کا سڑکوں پر چلنا ہے۔ ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق تمام ہیوی ٹریفک دن کے اوقات میں سڑکوں پر لانے کی ممانعت ہے تو پھر یہ کس کی اجازت سے سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں؟ فیملیز کے ساتھ سفر کرنا رسک بن گیا ہے۔ ہیوی ٹریفک کے ڈرائیورز تمام تر ٹریفک قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، روڈ سیفٹی کو نظر انداز کر کے اندھا دھند سڑکوں پر ٹریفک دوڑاتے ہیں۔ انہیں جیسے انسانوں کو روندنے اور کچلنے کا سرٹیفیکٹ دے دیا گیا ہو۔ ان سارے حادثات کے بعد موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس 2000 پرعملدرآمد اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان نہ ہونا ٹریفک پولیس سمیت متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ خراب اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، رانگ وے پر سفر، تیز رفتاری، اوور ٹیکنگ،ٹریفک پولیس کی غفلت اور ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں بھی حادثات کا سبب ہیں

Shares: