آیا صوفیہ کی بحالی اور ترکی کا نیا ارطغرل تحریر : عشاء نعیم

آیا صوفیہ کی بحالی اور ترکی کا نیا ارطغرل
تحریر : عشاء نعیم

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔
جمعہ کے مبارک دن مسلمانوں کے لیے جب ہر طرف سے افسوس ناک اور رنجیدہ کر دینے والی خبریں سننے کو مل رہی ہیں اور مسلمان بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں
یہ ایک عظیم خوش خبری تھی ۔
جبکہ مزید طیب اردگان نے کہا
"آیا صوفیہ کا دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونا ،مسجد اقصی کے دوبارہ فتح ہونے کا پہلا قدم ہے”
اردگان کی یہ بات مسلمانوں کی روح کو تسکین دے گئی ۔
1934 میں جب کمال اتاترک جیسے ملحد نے جہاں ترکی سے خلافت ختم کی وہیں اللہ کے گھر آیا صوفیہ کو مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا ۔
یاد رہے اس ملحد نے ترکی سے اسلام کامکمل خاتمہ کردیا تھا ۔
سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی میں ہر اسلامی شعار پہ پابندی، نماز ،قرآن اور اذان ہر چیز پہ پابندی ہی نہیں لگائی بلکہ ترکی زبان میں شامل عربی الفاط بھی ختم کردیئے ۔
پردے پہ پابندی لگا دی اور اپنے مغربی آقاوں کی خوب غلامی کرتے ہوئے اسلام سے غداری کی ۔
لوگ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے اور وہاں پولیس گھر گھر جاکر تلاشی لیتے تھی کسی کے گھر سے جائے نماز یا قرآن نکل آتا تو اسے پکڑ کر لے جاتے تھے ۔
ترکی نے اس کے بعد خوب مادی ترقی کی اور ایک سازش کے تحت لوگوں کے ذہن بھی بدل دیئے گئے ۔
اب ترکی کا اسلام سے واسطہ نظر نہیں آتا تھا بلکہ ترکش لوگ یورب میں شامل ہونے کے لیے ہلکان ہوئے جاتے تھے ۔
مغربی لباس ہی نہیں بلکہ تہذیب اور ہر رنگ مغرب کے رنگ میں رنگ گیا ۔
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے دل میں بس جائے پھر نکالنا آسان نہیں ہوتا ۔
کیونکہ یہ سچا آفاقی مذہب ہے جو عین فطرت کے مطابق ہے ۔
ترکی میں بھی لوگ چھپ چھپ کر نماز قرآن پڑھتے رہے اور اپنی اولاد کو بھی اسلام سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے اسلاف ست روشناس کرواتے رہے ۔
ان کے دل سے کوئی اسلام نہ نکال سکا ۔
کچھ لوگ تو محض ڈر کی وجہ سے بظاہر ایسا روپ دھارے ہوئے تھے جو مغربی یا سیکولر تھا لیکن دل پکا مسلمان تھا۔
انھیں اسلام پسند لوگوں میں ایک احمد اردگان بھی تھا جس نے اپنے بیٹے کو نہ صرف اسلام سے روشناس کروایا بلکہ اسے نسل و حسب پہ فخر کرنا بھی بتایا کہ غیر معنی ہے اور اصل چیز تقوی ہے ۔
طیب اردگان کی زندگی پہ بحث الگ چیز ہے فی الحال آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے ترکی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مذہب پہ پابندی کا قانون معطل کردیا اور حجاب پہ لگی پابندی کا خاتمہ کر دیا ۔اس کی اپنی بیوی بھی حجاب لیتی ہے ۔
اس سے اسلام پسند حلقے میں جہاں ترکی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہاں پوری دنیا کے مسلمانوں نے مسرت کا اظہار کیا ۔
اس کے بعد طیب اردگان کے کئی اسلامی کارنامے سامنے آئے ۔
جن میں کونٹنٹ وار میں شامل ہونے کے لیے ارطغرل جیسا دنیا کا مقبول ترین ڈرامہ اور اب سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی بھی شامل ہے ۔
اس کے علاوہ نئی نسل کو اپنے اپنی تاریخ سے آگاہ کرنے کے لیے شاندار ماضی کو دکھانے کے لیے آخری خلیفہ عبدالحمید جیسے ڈرامے بھی بنائے ۔
بظاہر یہ ڈرامے ہیں لیکن ان ڈراموں نے مسلمان بچوں کے ذہن بدل کر رکھ دئیے ہیں ۔
تو بات ہو رہی تھی آیا صوفیہ کی جسے مسجد سے عجائب گھر اور عجائب گھر سے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے ۔
یہ شروع میں ایک عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی جسے
1453 میں سلطان فاتح محمد نے اسے مسجد میں تبدیل کرتے ہوئے یہاں پانچ وقت رب کی عبادت کے لیے وقف کردیا ۔
بعد میں اس کی عمارت کو باقاعدہ مسجد کی طرز میں تبدیل کردیا گیا اور مشہور عثمانی ماہرِ تعمیر سنان نے اس عمارت کے گنبد کے ساتھ چار مینار تعمیر کیے اور مسجد کے اندر تصاویر ہٹا کر ان کی جگہ اسلامی خطاطی کی تھی۔

پھر 1934 میں سینکڑوں سال اذان کی آواز گونجتی کو بند کردیا گیا تھا ۔
اور اسے عجائب گھر قرار دے دیا گیا ۔
موجودہ ترک صدر شروع ہی سے اسے مسجد بنانے کے لیے پرعزم تھے۔ سال 1994 میں جب وہ  استنبول کے ناظم کا انتخاب لڑ رہے تھے تو انہوں نے اس عمارت کو نماز کے لیے کھولنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ 2018 میں وہ یہاں قرآن کی تلاوت بھی کرچکے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے یونیسکو کے عالمی تاریخی ورثے میں شامل اس مقام کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی۔ آیا صوفیہ مسیحی بازنطینی اور مسلمان سلطنت عثمانیہ دونوں کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔
 آیا صوفیہ دنیا کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک جو 537 میں تعمیر ہوئی اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کی حامل تاریخی عمارت ہے۔ ترکی میں سیاح سب سے زیادہ اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں۔
 1400 سال قدیم عمارت ترکی کی سیکولر بنیادیں محفوظ بنانے کے حامیوں اور صدر کی خواہشات کے درمیان کشمکش کا مرکز ہے۔عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی یونان، روس اور امریکی حکام اس پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ روس میں مشرقی آرتھوڈاکس کلیساؤں کے وفاق کے سربراہ نے کہا تھا کہ انہیں ترک حکومت کے اس اقدام پر تشویش ہے۔
واضح رہے کہ آیا صوفیہ تعمیر کے بعد سے کئی صدیوں تک مشرقی آرتھوڈاکس کلیسا کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ روسی مذہبی رہنما نے کہا کہ آج قدیم کلیسا کے ہر روسی پیروکار کے لیے آیا صوفیہ ایک عظیم عیسائی عبادت گاہ ہے اور اس کی موجودہ حیثیت میں کوئی بھی رد و بدل روسی عوام کے دکھ کا باعث ہو گا۔
 انہوں نے ترک حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لیں۔ یونیسکو نے بھی ایک بیان میں اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
یونان کی وزیر ثقافت لینا منڈونی نے اس عدالتی فیصلے کو مہذب دنیا کے لیے ‘کھلی اشتعال انگیزی’ قرار دیتے ہوئے کہا ‘آج کا فیصلہ، جو صدر اردوغان کی سیاسی خواہش کا نتیجہ ہے، مہذب دنیا کے لیے کھلی اشتعال انگیزی ہے، جو اس یادگار کو اتحاد کی علامت سمجھتی اور اس کی منفرد خصوصیت کو جانتی ہے
یونیسکو کی جانب سے اس عمارت کو 1985 میں عالمی تاریخی ورثے میں شامل کیا گیا۔ ہر سال لاکھوں سیاح آیا صوفیہ کو دیکھنے کے آتے ہیں۔ یہ 2019 میں 38 لاکھ سیاحوں کے ساتھ ترکی کا معروف ترین مقام تھا۔
الحمداللہ جمعہ کے دن ترکی کی عدالت نے تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے اسے مسجد میں تبدیل کردیا ۔
وہاں سالوں بعد گونجتی اذان مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑا گئی تو امید کی کرن بھی نظر آئی کہ کہیں مسلمان بھی ہیں جو کچھ کر سکتے ہیں ۔
اور اللہ کا حکم پورا کرتے ہوئے دنیا کے ہر حکم کو ٹھوکر پہ رکھ سکتے ہیں۔
دوسری طرف ہمارا پیارا پاکستان جس کے وزیر اعظم صاحب نے ریاست مدینہ کا دل نشیں نعرہ لگا کر پاکستانی عوام کے دل رو جیت لیے لیکن اقدامات انتہائی افسوس ناک ہیں ۔
گستاخ رسول کی رہائی ،علما کی گرفتاریاں اور بہت کچھ دوسرا ہونے کے ساتھ اب پاکستان کی عدالت کا اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ اور وزیر اعظم صاحب کی منظوری نے پاکستانی عوام کے دل توڑ دیئے ہیں ۔
ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک لا الہ الا اللہ کی بنیاد پہ بننے والے ملک میں کس طرح ممکن ہے کفر و شرک کی عمارت کی تعمیر وہ بھی اسلامی ملک کی حکومت اپنے خرچے پہ کرے اور عوام کی رائے کو بھی رد کردے ۔
جبکہ اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔
علما کا فتوی واضح ہے ۔
اس سلسلے میں بودے خیالات اور دنیا کے نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔
اسے انسانی حقوق اور روشن خیالی قرار دینا انتہائی جہالت ہے کیونکہ اسلام خالق کائنات کا اتارا ہوا مذہب ہے اور اسی نے اس کی اجازت نہیں دی تو میری اور آپ کی عقل کیا اللہ سے بڑھ گئی ہے ؟
ہمیں زیادہ معلوم ہے کہ انسانوں کے حقوق کیا ہیں؟
وہ جو ستر ماؤں سے بڑھ کر انسان سے پیار کرتا ہے اسے نہیں معلوم کہ انسان کو کیا حق دینا ہے ؟
اور بطور مسلمان ہم کیسے اپنے رب کے ساتھ بتوں کو شریک بنانے کے لئے خود اپنے خرچے سے عمارت بنا کر دینے پہ راضی ہو سکتے ہیں ؟
خان صاحب!اگر طیب اردگان آیا صوفیہ کو واپس مسجد میں تبدیل کر سکتا ہے تو پاکستان بھی مندر بنانے سے انکار کر سکتا ہے جبکہ اس کی ضرورت تو ہندووں کو بھی ہرگز نہیں ہے ۔ کیونکہ اسلام آباد میں پہلے سے کئی مندر موجود ہیں ۔
باقی اتنے دلائل دیتے ہیں آپ ریاست مدینہ کے والی کے اقدامات کے ،کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی مذہبی عبادت گاہ بنا کر دی کسی قوم کو ؟
کیا فتح مکہ کے موقع پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لطف و کرم کی انتہا ،ہر دشمن کو معاف کردیا تھا ،یہود و بت پرستوں کے لیے کسی عبادت گاہ کی تعمیر کا بھی اعلان کیا تھا ؟
یقینا ایسا نہیں تھا کیونکہ اسلام تو آیا ہی کفر و شرک مٹانے ہے۔
انسانوں کو پتھروں سے ہٹا کر رب کی عبادت پہ لگانے اور اسی کی غلامی سکھانے ۔

سو خان صاحب ! ہمارا مطالبہ ہے اپنا فیصلہ واپس لیجئے ،اس رب کے سامنے جھک جائیے اور جان لیں اگر ساری دنیا مل کر بھی آپ کو فائدہ دینا چاہے تو اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک میرا رب نہ چاہے اور اگر ساری دنیا مل کر بھی آپ کو نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی جب تک میرا رب نہ چاہے ۔
اور وہی ہوگا جو میرا رب چاہے گا ۔ بیرونی دنیا کا پریشر تو طیب اردگان پہ بھی تھا ۔لیکن اس نے ہمت کی اور کامیاب ہوا ۔
سو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو یقینا دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاو گے ۔ ان شاء اللہ

Comments are closed.