سپریم کورٹ میں ججز اذ خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی،،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی
اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہاکہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی،مجھے اس کیس میں وزیراعظم سے بھی بات کرنی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے۔کمرہ عدالت میں ججزکو آرڈرکاپی دستخط کرنے کیلئے دے دی گئی،جسٹس منصور علی شاہ نے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو کتنا وقت چاہئے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے کل تک کا وقت دے دیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا،اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ہم 45منٹ میں دلائل مکمل کر لیں گے،
اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین سپریم کورٹ میں پیش ہوئے،لاہور ہائیکورٹ بار، بلوچستان ہائیکورٹ بار اور بلوچستان بار کے وکیل حامد خان پیش ہوئے،وکیل حامد خان نے دلائل کیلئے ایک گھنٹہ مانگ لیا،سپریم کورٹ بار کے صدر اور ایڈیشنل سیکرٹری شہباز کھوسہ کے درمیان روسٹرم پر اختلاف ہو گیا،سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کیلئے آدھا گھنٹہ مانگ لیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے، ایڈیشنل سیکرٹری شہبازکھوسہ نے کہاکہ ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائرکی ہے ،ایگزیکٹو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے ،صدر شہزادشوکت نے کہایہ معلوم نہیں کیوں اپنی تشہیر چاہتے ہیں،ایڈیشنل سیکرٹری شہباز کھوسہ نے کہاکہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تعجب ہو رہا ہے کہ اتنے وکیل ہیں لیکن ایک پیج پر نہیں آسکتے، تعجب ہے کہ وکیل عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں آ سکتے، پاکستان بار کونسل سے شروع کرتے ہیں، ہر شخص کہہ رہاہے کہ اپنی بات کرنی ہے,جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انفرادی طور پر یہ کریں، میں یہ تجویز کر رہا تھا کہ ایک باڈی کی میٹنگ کر لیتے، جمہوری ادارے پارلیمنٹ میں اپوزیشن اہم حصہ ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کی،اٹارنی جنرل کو جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ بھی پڑھنے کی ہدایت کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ایک جج کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے وہ پڑھیں،اٹارنی جنرل کو پڑھنے پردشوارپرجسٹس اطہر من اللہ نے خود اپنا نوٹ پڑھ دیا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نوٹ میں لکھا ہے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں،جسٹس نعیم اختر افغان نے کہایہ بات اصل آرڈر کے پیراگراف 5میں بھی ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اس پیرا گراف میں صرف تجاویز مانگنے کی بات تھی۔
 ہم نے 76 سال جھوٹ بولا، سچ کو چھپایا، لوگوں کو سچ پتہ چلنا چاہیے،جسٹس اطہرمن اللہ
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے، صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ سپریم کورٹ کی لائیو سماعت روکی جائے، یہاں جو ہوا اس سے اچھا پیغام نہیں گیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہم نے 76 سال جھوٹ بولا، سچ کو چھپایا، لوگوں کو سچ پتہ چلنا چاہیے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پلیز پروسیڈ،
پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل کا آغاز کر دیا ، وکیل نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا،لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، پاکستان بار کونسل یہ توقع کرتی ہے کہ ضلعی عدالت کا جج وہ کام کر لے جو سپریم کورٹ کا جج بھی نہیں کر سکتا؟ حقیقت بہت مختلف ہے، وکیل شہزاد شوکت وائس چیئرمین سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ جب آپ براہ راست نشریات میں کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ مداخلت پر خاموش رہی تو اس سے عوام میں اچھا پیغام نہیں جاتا،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مداخلت پر سزاؤں کا قانون لانے کی سفارش کرتی ہے،اس معاملے سے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے،
 سب سے بدترین توہینِ عدالت 3 نومبر کی تھی، لیکن کاروائی نہیں ہوئی،جسٹس اطہرمن اللہ
احسن بھون نے کہا کہ جج کے پاس توہین عدالت سمیت دیگر آپشنز موجود ہیں کاروائی کر سکتے ہیں ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں جو کام سپریم کورٹ نہیں کر سکتی وہ ڈسٹرکٹ جج کرے ۔ سب سے بدترین توہینِ عدالت 3 نومبر (جب ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی) کی تھی جس پر عوامی طاقت پر بحال ہونے والی سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے بحالی کے بعد کوئی توہینِ عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز توہینِ عدالت کی کارروائی کریں،ہائیکورٹس کے ججز نے جو کہا ہے اسکو دیکھیں وہ ججز ہیں وہ غلط نہیں کہہ سکتے۔
سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہورہی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ ابتک جاری ہے  اور سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہورہی ہے، ساری ہائیکورٹس نے اپنی رپورٹس میں سیاسی مقدمات پر سنگین باتوں کو اجاگر کیا ہے اور ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کیا گیا ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا مداخلت تو ہورہی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کررہی،  ہم سب کو ماننا چاہیے انڈر ٹیکنگ دیں کہ وکلا کی مداخلت بھی روکی جائے گی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ  کیا آپ چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہو یا نہ ہو؟ مجھے بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ آگے بڑھتے ہیں کیونکہ دیگر افراد بھی ہیں، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ہوں لیکن میں بطور خود سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں دیگر ممبران بھی ہیں۔
پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ جس کا جو دل میں آئے بول دو، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک کمشنر نے جھوٹ بولا، سارے میڈیا نے چلایا، کسی نے نہیں پوچھا اس کا کوئی ثبوت ہے، دوسرے ممالک میں ایسا الزام لگے تو ہتک عزت کیس میں ان کی جیبیں خالی ہوجاتی ہیں، آزاد عدلیہ ہمارا فرض ہے ، حلف اٹھایا ہے، سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا قبضہ ہے۔میں نے جج بنتے وقت حلف لیا ہوا ہے، یہ میرا فرض ہے، ہمیں تنخواہ اسی چیز کی ملتی ہے، اس میں دو رائے نہیں کہ میں آزاد بیٹھنا چاہوں یا نہیں، پریشرمیں آنا چاہوں یا نہیں، یقیناً آپ بھی اپنے دلائل یا ڈانٹ ڈپٹ کر مجھ پر پریشر ڈالیں گے، پریشر بہت سارے ہو سکتے ہیں،پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ جس کا جو دل میں آئے بول دو،
عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے، سپریم کورٹ بار
دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی عدالت میں اپنی تجاویز جمع کرائیں جس میں سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ بارعدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کو کسی بھی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائیکورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
 توہین عدالت اور مداخلت سے زیادہ برا عمل قتل،، قتل کرنا کب سے منع ، کیا وہ رک گیا ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ توہین عدالت اور مداخلت سے زیادہ برا عمل قتل ہوتا ہے، قتل کرنا کب سے منع ہے، کیا وہ رک گیا ہے؟ معاشرے ہوتے ہیں، لوگ ہوتے ہیں، یہ چیزیں چلتی رہتی ہیں، آج حکم دیں کہ قتل ہونا بند کر دیا جائے، یہ رکے گا تو نہیں چلتا رہے گا، بات یہ کہ ہم اسے کیسے ڈیل کرتے ہیں، سزا و جزا کا عمل ہے جو چلتا رہے گا، ایک ڈیٹرنس تو یہ ہو سکتا ہے کہ سزائے موت دیکھ کر دوسرے کہیں قتل نہیں کرنا چاہیے، دوسرا یہ کہ کچھ نہ ہو، سزا نہ ہو تو وہ کہیں گے کہ ہم بھی کر لیتے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت ہو رہی ہے، حکومت اس مداخلت کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، سوال یہ ہے کہ اس مداخلت کو ختم کیسے کیا جائے؟ مداخلت کا معاملہ اب 6 ججز کے خط سے آگے بڑھ چکا ہے،پاکستان بار کے وکیل نے کہا کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی، عدلیہ کو خود ایکشن لینا ہو گا،جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عوام کو سچ جاننے کا پورا حق ہے، عوام کو سب جواب دہ ہیں،چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وائس چیئرمین صاحب! ہم آپ سے بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، آپ کو سننا چاہتے ہیں، سب لوگوں نے لمبا وقت لیا، کب تک مکمل کریں گے؟پاکستان بار کے وکیل نے کہا کہ ججوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے کہ ان کے پاس جو قانون موجود ہے اسے استعمال کریں،چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ 3 چیزیں کہہ رہے ہیں، ایک تو تحقیق ہو، دوسرا فوجداری قوانین کو جج استعمال کریں، تیسرا یہ کہ توہینِ عدالت کی کارروائی ہو۔
 ججز کو تنقید سے ڈرنا نہیں چاہیے چاہے جتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پاکستان بار کو یہ بھی تجویز دینا چاہیے تھی کہ وکلاء کی جانب سے مداخلت کو کیسے روکیں؟جسٹس اطہر من اللّٰہ  نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کے وکلاء کی نمائندگی کر رہے ہیں، ججز کو تنقید سے ڈرنا نہیں چاہیے چاہے جتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، چیف جسٹس کافی مشکل وقت سے بھی گزرے، 2018  سے آج تک میری دیانتداری پر سوال اٹھا، لیکن کچھ فرق پڑا؟ ججز کو تنقید سے فرق نہیں پڑنا چاہیے، عوام کا ججز پر اعتماد ہونا چاہیے، ملک میں جوڈیشل تاریخ میں سب سے بڑی توہینِ عدالت کیا تھی؟
 خطرناک بات  جج کے بیڈروم سے کیمرا نکلے، کسی شخص کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں ہونا چاہیے،احسن بھون
احسن بھون نے کہا کہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ سے جو ردِ عمل آیا ہم نے وہ عدلیہ پر چھوڑا ہے، کوئی دوسری رائے نہیں کہ ڈیٹرنس ہونا چاہیے، انتہائی خطرناک بات ہے کہ جج کے بیڈروم سے کیمرا نکلے، کسی شخص کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں ہونا چاہیے،چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ یہ کیسے روکا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے واقعات کی تفتیش ہو یا نہ ہو؟.جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے جو بذات خود ٹھیک سمجھا وہی کہا ہے، میری رائے ہے کہ دنیا بھر میں سماعتوں میں مداخلت ہوتی ہے، 3 نومبر کو سپریم کورٹ کے 8 ممبر بینچ نے عدلیہ بحال کی، کیسے ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز توہینِ عدالت کی کارروائی کر سکتے ہیں؟ ابھی تک معاملہ زیرِ التواء ہے، آپ توہینِ عدالت کی درخواست لائیں، اب تو سب ریٹائرڈ ہو چکے، یہی تو المیہ ہے،احسن بھون نے کہا کہ اسی لیے کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
 تنقید اور جھوٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، چیف جسٹس
ریاضت علی خان نے کہا کہ عدلیہ کو آزاد کرنے کے لیے ایگزیکٹیو کی ایک فورس عدلیہ کے ماتحت ہونا چاہیے، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ایگزیکٹیو اب عدلیہ کے ماتحت نہیں ہے؟چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آگے بڑھیں، کیونکہ ایسے باتیں ختم نہیں ہوں گی، بیوروکریٹ کے پاس تو کوئی توہینِ عدالت کا اختیار نہیں، عدالت کے پاس تو توہینِ عدالت کا اختیار ہوتا ہے، تنقید اور جھوٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، ایک کمشنر نے جھوٹ بولا، میڈیا نے جھوٹ چلایا، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا،جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ان سے پوچھا کہ آپ توقع کرتے ہیں کہ ماتحت عدلیہ کا جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ کے جج نہیں کر سکتے؟ 6 ججز نے ایک ایشو اٹھایا، جس کی ساری ہائی کورٹس نے توثیق کی، ساری ہائی کورٹس نے کہا کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے، اگر کوئی نشاندہی کرے گا تو اس کے ساتھ ایسا ہو گا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسی ڈیٹرنس ہونی چاہیے کہ جو ایسا کرے اس کو بھگتنا پڑے، میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے،صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر کہا گیا کہ جج کمپرومائز ہیں،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت سے کیا عدلیہ کا اعتماد مجروح ہوتا ہے، ایسا نہ کہیں کہ سب برابر ہے، ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں، کہیں کہ کچھ اچھے نکلے اور کچھ برے نکلے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پچھلے 50 سال میں کیا ہوا، میں آپ سے ہمدردی کر سکتا ہوں، بدل نہیں سکتا،جسٹس اطہر من اللّٰہ نے  کہا کہ بتائیں کہ ایسی صورتِ حال میں کیا کیا جائے جس پر ہائی کورٹس بھی روشنی ڈال رہی ہیں؟صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ اگر یہ پیغام جائے گا کہ آپ ججز ملے ہوئے ہیں تو کیا پیغام جائے گا؟چیف جسٹس   قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل دیں ورنہ ہم آپس میں لگے رہیں گے، لائٹر نوٹ پر بتاؤں مجھے کسی نے کہا تھا کہ جج کو سنیں اور وکیل کو بولنے دیں،جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیسے یقین دہانی کی جائے کہ مداخلت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا؟صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ سچ کہیں اور اسے نظر آنا چاہیے،چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوری مجھے یہاں مداخلت کرنا پڑے گی،صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ آپ یہ کہہ کر قبول کر رہے ہیں کہ آپ ملے ہوئے تھے،چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ آپ کو یہاں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں، سوری میں بہت بلنٹ بات کر رہا ہوں کہ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ کو نہیں بیٹھنا چاہیے، ہائی کورٹ کے ججوں کا خط باہمی خفیہ ادارہ جاتی خط و کتابت تھی جو میڈیا میں آئی،صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ ججز کا خط لیک ہونے کی انکوائری ہونی چاہیے، خط کوئی شکایت نہیں ہے اور یہ عوام کے لیے خط و کتابت نہیں تھی، جسٹس بابر ستار نے یہ کہا ہے جو کہ خط پر دستخط کنندہ ہیں
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں کوئی گولی تو نہیں ملتی کہ جس سےمضبوط جج بنا جاسکے، سسٹم بنانا ہوگا،کمپرومائزڈ جج کو ایک منٹ میں سسٹم سے باہر نکال دینا چاہیے، اگر کوئی جج کھڑا ہو تو اُس کیساتھ کھڑے ہوجائیں،
8 ججز کو پاؤڈر والے دھمکی آمیز خط،شیر افضل مروت نے الزام ن لیگ پر لگا دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط بھیجنے کا مقدمہ درج
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے بعد نئی صورت حال سامنے آگئی
عمران خان کو رہا، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے،عارف علوی کا وکلا کنونشن سے خطاب
جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔
ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر
ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر
لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی مشکوک خط موصول
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے عدالتی کیسز میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا ہے جس میں عدالتی معاملات میں انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی مداخلت پر مدد مانگی گئی ہے۔ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ہائی کورٹ کے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے خط ارسال کیا ہے۔ خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔خط کے متن کے مطابق ’عدالتی امور میں مداخلت پر ایک عدلیہ کا کنونشن طلب کیا جائے جس سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئیں گی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے کنونشن سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں مزید معاونت حاصل ہو گی۔








