آزاد کشمیرمیں الیکشن یا سلیکشن ؟ . تحریر۔ نوید شیخ

0
31

کل آزاد کشمیر میں الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ اس باریہ الیکشن بڑے سپیشل ہیں۔ کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے خوب زور لگایا ہے مریم تو مسلسل وہاں الیکشن کمپین چلاتی رہیں ۔ بلاول نے بھی خوب بڑے بڑے جلسے کیے ۔ پی ٹی آئی کے وزیر بھی وہاں خوب نوٹ بانٹتے، گولیاں چلاتے، انڈے اور جوتے کھاتے دیکھائی دے ۔

کشمیر میں الیکشن کے دوران خرید و فروخت کا کام بھی جاری رہا ۔ ایک ایک امیدوار نے بیس بیس کروڑ روپے دیئے ۔ اور ایسا لگا کہ سیٹ کے لیے سب سمجھتے ہیں کہ ہم نے سری نگر نہیں مظفر آباد کو فتح کرنا ہے۔ اب کل ہوگا کیا اس حوالے سے گیلپ نے سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق تحریک انصاف آزاد جموں و کشمیر میں آسانی کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ان کے مطابق آزاد کشمیر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان ایک مقبول ترین لیڈر مانے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جماعت آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنانے کے لئے بظاہر تیار ہے۔

ان کے مطابق تحریک انصاف کے جیتنے کا امکان 44 فیصد ہے، جب کہ ن لیگ کے پاس 12 فیصد عوامی حمایت ہے۔ پیپلزپارٹی تیسرے نمبرپرصرف 9 فیصد عوامی پسندیدگی کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ اب اس سروے کو یقینی بات ہے پی ٹی آئی تو خوب پروموٹ کر رہی ہے ۔ بلکہ الیکشن سے پہلے ہی اس سروے کی بنیاد پر وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ جیت چکے ہیں ۔

سروے اپنی جگہ مگر جو کچھ دیکھائی دیا ہے اورجو خبریں وہاں سے آئی ہیں۔ مریم اوربلاول نے بھی بھرپورکمپین چلائی ہے۔ سیاست میں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کب پانسہ پلٹ جائے ۔ یہ بھی ممکن ہےکہ حکومت تو تحریک انصاف کی ہی بنے مگر اسکو coliation government
بنانی پڑے ۔ جیسا گلگت بلتستان میں ہوا یہ بھی ممکن ہے ۔

دوسری جانب نواز شریف کی لندن افغان سیکورٹی ایڈوائزرسے ملاقات کوبھی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ کئی وزیروں نے اس پر پریس کانفرنسیں بھی کردی ہیں۔ تو دوسری جانب ن لیگ بھی پیچھے نہیں ہے۔ مریم مسلسل ٹویٹس پرٹویٹس کر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ establishment کو انڈرپریشرکرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن سے پہلے ہی ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ شاید کل دھاندلی ہوگی ۔

جبکہ بلاول بھی کہہ رہے ہیں کہ کل ایسا نہ ہو کہ تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن ہوں۔ ان کے مطابق وزیراعظم پاکستان اور وزرا سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ن لیگ کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کہ وزیراعظم آزاد کشمیر بھی انتخابی مہم میں سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق اورکئی دیگر رہنما بھی پہلے سے خبردار کرچکے ہیں کہ آزادکشمیر میں الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہورہی ہے۔ تو شیخ رشید بھی خوب تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں کہ اپوزیشن نے آزاد کشمیرالیکشن سے پہلے رونا دھونا شروع کردیا ہے۔ اب وہ تو دعوی کر رہے ہیں کہ کل لال حویلی سے پی ٹی آئی کی جیت کا اعلان کروں گا۔

اس سارے معاملے پرگنڈا پورکی زبان بھی خوب چل رہی ہے اورایسے چل رہی ہے کہ پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ کل تو انھوں نے بہت ہی گری ہوئی باتیں بھی کیں۔ جس پر پی ٹی آئی تو ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ بلکہ ٹاپ ٹرینڈزبن گئے ہیں کہ standwithgandapur تواس سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کہ سیاست میں تلخی کس عروج پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ روز عمران خان نے کشمیر پر ریفرنڈم کا بیان دیا جو شہباز شریف نے مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ گزشتہ دوجلسے عمران خان نے بھی کافی بڑے اورتگڑے کیے ہیں۔ پرسوشل میڈیا پرایک الگ طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے آسان الفاظ میں جوجو کچھ پاکستان کے الیکشنز میں ہوتا ہے وہ تمام رنگ آزاد کشمیر کے الیکشن میں دیکھائی دیے ۔ کامن سینس تو یہی ہے کہ ووٹ تو انہی لوگوں کو ملنے چاہئیں جوعوام میں مقبول ہیں۔

آخر کار ووٹ تو عوام ہی دیتے ہیں۔ لیکن یہ کامن سینس اتنی کامن نہیں ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ہمیشہ وہ پارٹی ہی کیوں جیتتی ہے، جو پاکستان میں حکومت وقت کی آزاد کشمیر شاخ ہوتی ہے۔ اب یہ جو مفروضہ ہے کہ جو پارٹی اسلام آباد میں برسرِاقتدار ہوتی ہے، اس کا مظفر آباد میں برسرِ اقتدار آنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آزاد کشمیر کے لوگ ایک خاص قسم کی پہاڑی دانش رکھتے ہیں۔ ان کا یہ احساس بہت گہرا ہے کہ ان کولامحدود مسائل کا سامنا ہے۔ اس مسائل کے حل کے لیے وہی لوگ کچھ کر سکتے ہیں، جن کی پاکستان میں حکومت ہو۔ چونکہ کسی بھی بڑے اورقابل ذکر منصوبے کے لیے وسائل اورمنظوری تو بہرحال اسلام آباد سے ہی آئے گی۔ کچھ لوگ اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر موقع پرستی کا الزام بھی دھر دیتے ہیں۔

پراسکا counter narrative لوگ یہ دیتے ہیں کہ پھر پاکستان کے صوبوں میں بھی وہی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کئی بار ایسا ہوا کہ مرکز میں ایک پارٹی کی حکومت قائم ہے، مگر صوبے میں دوسری پارٹی حکومت بنا لیتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں بھی اکثرایسا ہوتا رہا ہے کہ عوام نے مرکزی حکومت کے خلاف ووٹ دئیے۔ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ لیکن ان معاملات سے تھوڑا آگے جا کر یہ سنجیدہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں برسر اقتدار حکومت اس کے وزرا اور سرکاری اہل کار حکمران پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں، جس سے ان لوگوں کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے الیکشن میں دھاندلی کا راگ اس قدر شد ومد سے الاپ رہی ہیں جیسے کہ دھاندلی کا سارا منصوبہ ان کی نگرانی میں مرتب ہوا ہو۔ الیکشن میں کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی ان دونوں جماعتوں نے آزادکشمیر پر پانچ پانچ برس حکومت کی ۔ گزشتہ عام الیکشن میں پی پی پی اسمبلی کی محض تین نشستیں حاصل کرسکی تھی۔ اب کی بار نون لیگ کی الیکشن میں کامیابی کے امکانات مخدوش ہوچکے ہیں۔ اس کے بڑے بڑے برج الٹنے کا خطرہ حقیقت بنتا نظر آرہاہے۔ آزادکشمیر کے لوگ زیادہ دیر تک ایک جماعت سے وابستہ نہیں رہتے۔ اکثریت ان کی تعلیم یافتہ اور عملیت پسند ہے۔ وہ آزمائے ہوں کو باربار آزمانے کی تھیوری پر یقین نہیں رکھتے۔ ووٹروں اور رائے عامہ کو پی ٹی آئی کے حق میں ہموار کرنے میں اورسیز کشمیریوں کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے لیے 370 ارب روپے کا معاشی پیکیج دیا ہے۔ کشمیریوں کو توقع ہے کہ جیت کے بعد اسی طرح وہ آزادکشمیر کے لیے بھی بڑے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کریں گے۔ تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں پر یہ بھی برتری حاصل ہے کہ وہ پہلے حکومت میں نہیں رہی۔ اس کے برعکس نون لیگ، پی پی پی اور مسلم کانفرنس طویل عرصے تک اقتدار سے لطف اندوز ہوتی رہی ہیں۔

پی ٹی آئی میں ایسے سیاستدانوں کی ایک معقول تعداد شامل ہوچکی ہے جو اپنے اپنے علاقوں میں موثر ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر عبدالرشید ترابی نے بھی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے ابھی تک دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اچھی پوزیشن میں ہے صاف جیتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے ۔ مگرمیری sixth sense کہتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنے ووٹر کو باہر نکالنے اور بقول مریم اور بلاول ان کے لوگ ووٹ پر پہرہ دینے میں کامیاب ہوگئے تو یہ سرپرائز ضروردے سکتے ہیں حکومت چاہے ان کی بنے یا نہ بنے۔

@naveedsheikh123

Leave a reply