تنقید کی بناء پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیےجائیں،چیف جسٹس کا حکم

0
250
supreme

سپریم کورٹ،ایف ائی اے کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،ہراساں کیے جانے والے صحافی کورٹ میں پیش ہوئے،صحافیوں میں عبد القیوم صدیقی ، سہیل رشید، فیاض محمود اور ثاقب بشیر شامل تھے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت میں پیش کتنے کیسز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ چار درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواستگزارہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے پاکستان بار کے نمائندے موجود ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اب ختم ہو چکی، وکیل حیدر وحید نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو آزادی اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی درخواست بعد میں دیکھیں گے،سب سے پہلے تو قیوم صدیقی بتائیں کہ کیس خود چلانا ہے یا پریس ایسوسی ایشن کے صدر دلائل دیں گے؟ صحافی نے کہا کہ میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر دو میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بنچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بنچ نے طے کیا کہ 184 تین کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے،عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے، صحافی نے کہا کہ جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بنچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے،

اسد طور صاحب آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسد طور پر تشدد ہوا کیا ان کا پتہ چلا کہ کون لوگ تھے؟کیا آپ ان کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟اسد طور نے کہا کہ جی بالکل میں ان کی شکلیں پہچان سکتا ہوں، جو ایف آئی آر دی تھی اس میں بھی میں تشدد کرنے والوں نے اپنا تعارف کروایا تھا.اسد طور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کردی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسد طور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے جھوٹا الزام لگایا ہے؟ اگر آپ پر دباؤ ہے تو ہم آپ کو پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے، اسد طور نے کہا کہ میں ایف آئی آر کو اون کر رہا ہوں لیکن اس درخواست میں مجھے غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسد طور صاحب آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں،کیا اسد طور کا کیس فعال ہے یا سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے؟ اسد طور نے کہا کہ سال 2021 میں دائر کی گئی پٹیشن میں مجھے ٹریپ کیا گیا تھا، تین سال پرانی درخواست سے خود کو الگ کر رہا ہوں، جو حالیہ اعلامیہ ہے اس سے متفق ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے جھوٹے الزامات لگائے تھے؟ اسد طور نے کہا کہ ایف آئی آر میں عائد الزامات پر قائم ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ کیس بھلے نہ چلائیں ہم آپ کو بنیادی حقوق دلوائیں گے، آپ پر دبائو ہے تو کیس واپس نہیں لینے دینگے، اسد طور نے کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دبائو نہیں ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کو روسٹرم پر بلا لیا ، اسد طور نے کہا کہ سال 2021 میں جب درخواست دائر ہوئی تو سمجھا تھا کہ مطیع اللہ جان بھی ساتھ ہیں،جس انداز میں کمرہ عدالت میں درخواست دی گئی وہ طریقہ کار درست نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس انداز میں درخواست لگی اس سے میں بھی مطمئن نہیں ہوں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے۔صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا،ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے،ہمیں سچ بولنا چاہیے،اگر ہم سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں، یہاں مٹی پاؤ نظام چل رہا ہے،جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا،

میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نےصحافیوں کو جاری ایف آئی اے نوٹس فوری واپس لینے کا حکم دے دیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو اگر تنقید کرنے پر نوٹس دیئے گئے ہیں تو وہ واپس لیں، اگر خامیاں تنقید کے ذریعے اجاگر نہیں کریں گے تو میں اپنی اصلاح کیسے کروں گا،پریس ایسوسی ایشن نے کہا کہ ہمارا مقدمہ صرف صحافیوں کی حد تک ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے تفریق کی بات کر دی،دل کھول کر تنقید کریں،تنقید سے اصلاح ہوتی ہے،فیصلوں پر تنقید کو خوش آمدید کہتا ہوں،تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، سپریم کورٹ بارے تنقید پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تھمب نیل پر جو کچھ لکھاہوتاہے وہ اندر نہیں ہوتا،یہ بہت عجیب ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ یہ سمجھ رہے کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ میرا نقصان کر رہے ہیں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالم گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بناء پر کارروائی نہ کرے،عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل 14 کا بھی کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فئیر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ گالم گلوچ غلط ہے لیکن تنقید پر ممانعت نہیں، اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہئے،صحافی قیوم صدیقی نے کہا کہ وفاقی حکومت سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جے آئی ٹی کس کے کہنے پر بنی کیونکہ بہت قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں، خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں، کچھ باتیں قائد اعظم کی کر لیتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہوں نے تو قائد اعظم کا بھی مذاق اڑایا ہے،

ارشد شریف قتل کیس بھی مقرر کیا جائے، مطیع اللہ جان کی چیف جسٹس سے استدعا
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا سوموٹو بھی مقرر کیا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ارشد شریف کا کیس ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر ساتھ ہی لگا دیں، اس وقت کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو ارشد شریف کے کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہوں، صدر سپریم کورٹ بارنے کہا کہ فیصلے پر تنقید ہونی چاہیے لیکن ججز کے خلاف من گھڑت کہانیاں نہیں بنانی چاہیے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا،
ٹی وی کیلئے تو پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے،جو کچھ یوٹیوب کے تھمب نیل میں ہوتا ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہوتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کیساتھ کچھ اور چیزیں بھی صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں، پولیو ورکرز کو قتل کر دیا جاتا ہے، خواتین کے سکولوں میں بم مارے جاتے ہیں، انتہاء پسند سوچ کیخلاف حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی؟ خواتین کو ووٹ ڈالنے اور پولیو قطروں سے روکنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟جڑانوالہ میں دیکھیں کیا ہوا، سب نفرت کا نتیجہ ہے، ان لوگوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اب یہ اژدھا بن گئے ہیں،خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا؟ مطیع اللہ جان نے کہا کہ میڈیا پوری دنیا میں خود احتسابی اور اپنے ضابطہ اخلاق پر چلتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میڈیا خود ضابطہ اخلاق بنانا چاہتا ہے تو بتائے کس کی مدد درکار ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا پریس ایسوسی ایشن کسی غلط خبر کی تردید کرتی ہے؟ہتک عزت کیس ہوجائے تو پچاس سال فیصلہ ہی نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کر دی
خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات کی تشہیر، ایف آئی اے حرکت میں آ گئی

طلال چوہدری ،عائشہ رجب علی کو ٹکٹ نہ ملنے پر "تنظیم سازی” سوشل میڈیا پر زیر بحث

سماعت سے محروم بچوں کے والدین گھبرائیں مت،آپ کا بچہ یقینا سنے گا

سوشل میڈیا پر فوج مخالف پروپیگنڈہ کےخلاف سینیٹ میں قراردادمنظور

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی تشہیر،یورپی ممالک سے 40 پاکستانی ڈی پورٹ

حاجرہ خان کی کتاب کا صفحہ سوشل میڈیا پر وائرل،انتہائی شرمناک الزام

Leave a reply