1947 میں، سعادت حسن منٹو، جب اَپنے بیوی بچوں سمیت بحری جہاز سے بمبئی سے کراچی پہنچا تو نجانے کیوں اُس کا دِل چاہا کہ وہ جلد سے جلد لاہور پہنچ جائے۔ اس سلسلے میں جب اُس نے ریلوے ٹکٹ لینے چاہے تو پتہ چلا کہ رش کی وجہ سے بُکنگ کئی کئی دن بعد کی مِل رہی ہے۔
منٹو لکھتا ہے کہ اُس نے بُکنگ کلرک کو رشوت دینے کی کوشش کی تو اُس نے منٹو سے کہا: ” بھائی صاحب! اَب پاکستان بَن گیا ہے، اَب یہاں یہ کام نہیں چلے گا”۔
آئے، آج ہم اَپنی تاریخ میں 74 سال پیچھے جائیں اور اَپنی آزادی کا سفر،کراچی کے اُس ریلوے بُکنگ کلرک سے دوبارہ آغاز کریں۔ آج ہمارے ملک میں بددیانتی ظلم و جبر ناانصافی کرپشن ہر طرح کے کام ہورہے ہیں۔
حالانکہ ہمیں چاہیے تھا کہ اس وقت تک ہم ایک مضبوط قوم بن چکے ہوتے لیکن بدقسمتی سے آج تک ہم آگے جانے کی بجائے بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔
کوئی ایک ادارہ نہیں جہاں کرپشن بددیانتی ناانصافی نہ ہو رہی ہو ہر جگہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے کیا ہمارے بڑوں نے اس وجہ سے قربانیاں دی تھیں۔
کیا ہمارے اسلاف کے قافلے روک کر ان کو بے دردی سے مارا گیا اور بچ بچا کر پاکستان پہنچیں میں کامیاب ہوگئے ۔
اور وہ لٹے پٹے یہاں پہنچیں لیکن انہوں نے پاکستان میں داخل ہوتے ہی سجدہ شکر ادا کیا۔
1857 میں علماء کرام نے قربانیاں دیں دہلی میں کوئی ایک درخت نہ تھا ۔ جہاں پر کسی مسلمان کی لاش نہیں لٹک رہی تھی ۔
کیا تحریک آزادی اسی لئے چلائی گئی تھی کی اس ملک کو کنگال کر کے رکھ دیا جائے ۔
آپ نے پچھلے دنوں ایک خط کا ذکر تو سنا ہو گا ۔
جو ایک عورت نے وزیر اعلی سندھ کو لکھا ہے ۔
کہ میرے پاس میرے شوہر کے علاج کروانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔
وہ عورت کوئی اور نہیں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بہو ہے ۔
اور ان کا بیٹا اس وقت بیماری میں مبتلا ہے ۔
ہاں وہی نواب لیاقت علی خان جو انڈیا میں ضلع کرنال کا بہت بڑا جاگیر دار تھا ۔
کئی ریلوے اسٹیشن ان کی زمین میں تھے ۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا گریجویٹ لیکن جب پاکستان آزاد ہوا تو وہ بنا کچھ لئے پاکستان آ گئے۔ اور یہاں آکر بھی ایک انچ زمین کا کلیم نہ کیا وگرنہ وہ پاکستان کے بہت بڑے جاگیر دار ہوتے ۔
ہر شہر میں ان کا محل ہوتا ۔
جب ان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا تو ان کی شیروانی اتاری تو نیچے سے اک پھٹی ہوئی بنیان نکلی قمیض تو پہنی ہی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے پاس اپنا ذاتی گھر بھی نہیں تھا ۔
ان کی بیوی ایک انگریز افسر کی بیٹی تھیں۔
مسلمان ہونے کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کہلوائیں۔ وہ سندھ کی گورنر بھی رہیں اور بہت سارے یورپین ملکوں میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں۔
ہالینڈ میں جب وہ سفیر تھیں تو وہاں کی ملکہ کے ساتھ ان کی دوستی ہو گئی اور ایک دن شطرنج کھیلتے ہوئے ان کی شرط لگ گئی اور جب بیگم رعنا لیاقت علی خان جیت گئیں۔ تو انہوں نے ایک محل تحفے میں دے دیا ۔
حالانکہ وہ بیگم کا اپنا جیتا ہو محل تھا لیکن انہوں نے اس محل کو پاکستان کا سفارتخانہ بنا دیا ۔
آج بھی ہالینڈ میں وہی محل پاکستان کا سفارتخانہ ہے ۔ حالانکہ اگر وہ چاہتی تو اپنے پاس بھی رکھ سکتی تھیں۔آج ان کی اولاد گورنمنٹ سے مدد مانگ رہی ہے ۔
اور یہاں پر اگر سیلاب زدگان کیلئے امداد میں کوئی ہار یا کچھ اور چیز مل جائے تو وہ اپنا ذاتی تحفہ سمجھ کر رکھ لی جاتی ہے۔
آج ان کی اولاد گورنمنٹ سے مدد مانگ رہی ہے ۔
اور دوسری طرف ایون فیلڈ اور کروڑوں کی جائیداد اور یہ بھی سب لوگ جانتے ہیں۔
کہ یہ لٹیرے خاندان جب ہجرت کر کے آئے تھے ان کے پاس کتنی جائیداد تھی ۔
ملک کو بنانے والوں کی اولادیں آج بہت ہی کمزور حالت میں ہیں۔
اور ملک کو کھانے والوں کی اولادوں کے پاس کروڑوں کی پروپرٹیز وہ بھی دوسرے ملکوں میں اگر پوچھا جائے کہ یہ رقم کہاں سے آئی تو وہ کہتے ہیں ہمیں کیوں نکالا؟
ابھی تو صرف جناب نواب لیاقت علی خان صاحب کے خاندان کا یہ حال ہے اگر دیکھا جائے تو جتنے بھی تحریک آزادی میں شامل تھے سبھی کا ایسا ہی ملتا جلتا حال ہے ۔
اور جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ان کا بھی حال سب کو معلوم ہے ۔
ہمیں مل کر اس ملک کو اس حالت سے نکالنا ہو گا اور اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا ہو گا ۔
اللہ تعالٰی سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
75 آزادی مبارک۔
Shares: