اس سے پہلے میں آزادی کا مغربی تصور بیان کرچکی ہوں آج اس بلاگ میں لفظ آزادی کا اسلامی تصور پیش کرونگی۔ آزادی کا جو تصور زد، عام ہے وہ آصل میں آزادی ہے ہی نہیں وہ تو "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” والا معاملہ ہے اور اس سے معاشرے میں تباہی تو آسکتی ہے لیکن آمن اور سکون نہیں۔معاشرے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ پورے معاشرے کو رہن سہن کے آصول بتائے جائیں ان اصولوں پر عملدرآمد کروایا جائے اور ناماننے والوں کے لیے قوانین بنائے جائیں عدالتوں کو بنایا جائے پورا ایک سسٹم ہو ہے جس کی وجہ سے صرف آمیر یا پیسے والا نہیں بلکہ غریب کو بھی جینے کا اتنا ہی حق ہو اور اپنی بات کو دوسروں پہنچانے کے مواقع بھی اتنے ہی ملیں جتنے کہ آمیر کو۔اسلام میں آزادی کے عام طور پر چار پہلو ہیں
1آزادی مطلق
2آزادی اقوام
3شہری آزادی
4سیاسی آزادی
انسان اگر ارادہ کرے کسی کام کا اور ارادے کے مطابق وہ جو چاہے کرے اسے کوئی روک ٹوک نا کرسکے، اس کی مرضی کے خلاف کچھ نا، ہو تو اسے آزادی مطلق کہتے ہیں لیکن مسلہ یہ ہے کہ یہ آزادی انسان کو حاصل ہی نہیں ہے آزادی کی یہ قسم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔اور اسکا حق بھی صرف اللہ کو حاصل ہے وہ کائنات کی ہر چیز، پر، حاوی ہے کیونکہ پوری کائنات اسکی تخلیق ہے۔اس کا فیصلہ حتمی ہے اور اس کی تنقید بے قید، ہے۔
قران مجید میں فرمایا گیا ہے
ان الله یحکم مایرید
ترجمہ: بیشک اللہ جو چاہتا ہے اور جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسکا حکم نافذ کردیتا ہے۔
سورہ آل عمران میں ہے
کہو کہ اختیارات سارے اللہ کے ہاتھ میں ہیں
مطلب یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور وہی اس پر حاکم ہے۔انسان اللہ کی اطاعت کرے انسان کو ایسی کوئی آزادی حاصل نہیں ہے جس، میں وہ جو چاہے کرتا پھرے آزادی محص( فطری آزادی)
آزادی کو مروجہ وجوہ کی بنا پر فطری حق تسلیم کیا جاتا ہے
یہ کہ آزادی کا جذبہ ہر ایک انسان کا فطری خاصہ ہے۔
یہ کہ اگر آزادی حاصل نہ ہو تو کوئی انسان اپنے حالات کی درستگی واصلاح ہرگز نہیں کرسکتا’یعنی وہ کسی چیز کا جوابدہ نہیں ہوسکتا’جب تک کہ آزاد نہ ہو بلکہ آزادی کے بغیر وہ انسان ہی نہیں کہلایا جا سکتا
قدیم زمانہ میں غلامی کا رواج تھا اور یونان کے بہت بڑے فلاسفر ارسطو کا کہنا ہے کہ” بعض آدمی فطری طور پر اپنے حالات میں حسب منشاتصرفات کرنے پر قادر نہیں ہے ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ غلام رہیں اور ان کے آقا ان کے مصالح کے کفیل ہوں”
جبکہ اسلام طریقہ غلامی کو ناپسند کرتا ہے اور اور آقا اور غلام کے درمیان بھی مساوات کا درس دیتا ہے۔
قومی آزادی
اسکا مفہوم اپنی ریاست کو کسی دوسری ریاست کے ظلم سے بچانا ہے اپنی ریاست کے لیے جان اور مال کی قربانی دینا۔ اپنی ریاست کی حفاظت کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا۔
شہری آزادی
کسی ریاست میں رہتے ہوئے کون کونسی آزادیِ چاہیئے ہوتی ہے یا حاصل ہوتی ہے ان میں آزادی اظہار رائے، آزادی اجتماع وتقریر، معاشی آزادی، مزہبی آزادی، حق ملکیت کی آزادی، جان کے تحفظ کی آزادی، قانونی آزادی۔آزادی اظہار رائے میں ہر انسان آذاد ہے وہ کسی بات یا موضوع کے بارے میں صحیح یا غلط رائے رکھے اگرچہ اس کے پاس دلائل موجود ہوں، اسی طرح تحریر و تقریر میں آزاد ہے اگرچہ کسی کی توہین اور ہتک آمیز القابات شامل نا ہوں نفرت پر نا ابھارا جائے آزادی کی آڑ میں امن کو نقصان نا پہنچایا جائے۔ موجودہ دور چونکہ جدید دور ہے اس، میں اظہار رائے کے اور بھی طریقے ہیں جس میں خاص طور پر پرنٹ میڈیا الیکٹرونک میڈیا اور اب سوشل میڈیا ہے اپنے خیالات کے اظہار کا بہترین زریعہ ہیں لیکن پاکستان چونکہ اسلام کے نام پے معرض وجود میں آیا ہے اس لیے اسلام کے خلاف بات نہیں ہوسکتی ہے۔اور نا ہی اشاعت ہوسکتی ہے۔رزق کمانے کی آزادی سب کو بشرطیکہ کہ کسی اور رزق چھینا نا جائے کسی اور کے رزق کو غلط طریقے سے ہتھیایا نا جا سکے۔حلال کمایا جائے اور ملکی قوانین کے مطابق عشر زکوٰۃ اور ٹیکس ادا کیا جائے ۔مذہبی آزادی میں اپنے عقیدے کے مطابق رہنے کا مکمل اختیار دیا جائے جب تک کہ وہ اپنا عقیدہ مسلط نا کرے۔ تمام مذاہب کو اپنے مذہب کی ترویج کا بھی حق حاصل ہے البتہ قادیانی ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ وہ مرتد ہیں اسلامی قوانین کے مطابق۔آزاد ملکیت میں زمین جائداد خریدنے اور فروخت کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن ناجائز طریقے سے کسی مظلوم کی جائداد پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا اگر کوئی ایسا کرےگا تو قانون کے مطابق سزا کا حق دار ہوگاجان کی آزادی یعنی ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر زندگی بسر کرے اور اپنی زندگی بچانے کے لیے ہر قسم کا دفاع کرسکے۔ سیاسی آزادی میں ہر فرد کو اپنی ریاست کے سیاسی معاملات میں حصہ لینے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ سیاست میں سیاسی جماعتوں کے منشور کے مطابق تحریر وتقریر ہوتی ہیں لیکن کہیں بھی ریاست کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو سپورٹ نہیں کیا جاتا ہے۔ آزادی کی ان تمام اقسام میں بھی مدر پدر آزادی کہیں نہیں ہے ہرآزادی کے ساتھ کچھ حدود جڑی ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست دان ہوں میڈیا ہاؤسز ہوں یا پھر بیوروکریسی سبھی اپنی آزادی کے تحفظ کے نام پے ملکی وقار کو داؤ پے لگا رہے ہیں جو کہ ایک مہذہب معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے۔۔
جزاک اللہ
@irumrae