آزادی کی گونج
منہال زاہد سخی

وہ قلم اٹھانا چاہتا تھا لیکن اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے یا قلم میں روشنائی نہیں تھی یا اس کے ہاتھ سطریں لکھنے سے قاصر تھا ۔ اس کا دل اسے پکار رہا تھا لکھ دے لیکن اس کا دماغ اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا ۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ پچھلے دور کی شہنائیاں پھر کبھی نہیں بجیں گی ۔ لیکن وہ اک بات سے بے خبر تھا کہ شہنائیاں بجیں گی ضرور لیکن کسی اور کے ہاتھوں سے ۔ ہاں وہ لکھنا چاہتا تھا ایک ایسی شخصیت کو جسے دنیا نے خود لکھ دیا تھا ۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔ وہ اٹھا اور کمرے میں روشنی کرتی ڈیجیٹل شمع کو بجھا دیا ۔ اور خوب رونے لگا ۔ اس کی ہچکی بند گئی اس کی چھوٹی سی داڑھی بھیگ چکی تھی ۔ آنسو اس کی قمیض کو تر کر رہے تھے ۔ وہ اس شخصیت کا ادنیٰ سا غلام تھا اور ساری عمر غلامی میں جینا چاہتا تھا ۔

اس کی آنکھوں کے بہتے آنسوؤں میں اس اک شخصیت کے ماضی کا عکس تھا ۔ اس کی یاد گیلی پلکوں میں نقش تھی ۔ کمرے کے ویران سے ماحول سے اسے اس کی آواز اپنی سماعتوں سے ٹکراتی محسوس ہوئی ۔ اس کا ذہن یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کیوں اک بے گناہ کو سزا دی گئی ہے کیوں اس پر مقدمات کی بھرمار ہے ۔ وہ خود سے کہنے لگا سب کچھ حقیقت ہو سکتا ہے لیکن اس ایک کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اس کے سوچوں میں پھر کچھ الفاظ اور جملے گونجنے لگے ۔ سال 2017 کشمیر کے نام ۔ سال 2018 بھی کشمیر کے نام ۔ وہ تو محض اک اعلان تھا لیکن اس کی ساری زندگی قائد اعظم کی بتلائی گئی پاکستان کی شہہ رگ کی خاطر وقف تھی ۔ اس کی مکمل زندگی اس مادر ملت کے دفاع کیلئے گزری ۔ اس کی شخصیت ایسی کہ ہر شخص اس کی عزت کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا ۔ اس کا رعب ایسا کہ دشمن نام سن کر کانپنے لگتے ۔ اس کا نام اتنا عزت دار کہ کشمیر کی وادیوں میں ہتھیار بم اور دھماکوں کی گونج میں گونجتا تھا ۔ اس کا کردار ایسا کہ ہر شہید کے جنازے پر اس کے نعرے گونجتے ۔ شہداء کی خواہش آخر ہوتی کہ اس سے مل کر اس کی آواز سن کر جام شہادت نوش کروں ۔ اس کے ذہن میں خاکہ بنتا چلا گیا ۔ اس کی پکار اس کی سماعتوں سے ٹکرا کر اسے جھنجھوڑ رہی تھی ۔ اس نے قلم پھینکا ڈائری بند کی اور پورے گھر کو روشن کرتا ہوا باہر نکل چکا ۔ وہ چل رہا تھا بوجھل قدموں سے اس کا بدن اسے آگے بڑھنے کا کہہ رہا تھا لیکن اس کے بوجھل قدموں میں جان نہیں تھی ۔ وہ بار بار اپنے بازو کو اوپر کر کے آنکھیں اور ناک صاف کرتا ۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ۔ اور وہ بار بار یہ عمل دہرانے پر مجبور ہو جاتا ۔

اس نے وطن عزیز کے 72 برس سامراج کی قید پر نظر دوڑائی تو اسے وجود بے قابو ہوتا دکھائی دیا ۔ پھر سے اس کے خیالات اس کے ذہن میں نہیں اس کے پورے بدن میں گردش کر رہے تھے ۔ آج 5 اگست 2020 تھا اور بنیے کے کرفیو کو کشمیر میں اک سال ہوگیا تھا ۔ اس کے ذہن میں بار بار اک خیال چمک رہا تھا اگر وہ آج آزاد ہوتا تو کوئی کراچی سے اسلام آباد کشمیر مارچ ہوتا ۔ اس کے ذہن میں لاہور سے اسلام آباد کا مارچ گردش کر رہا تھا ۔ اس کے آنسو کم ہوگئے تھے پر رکے نہیں تھے وہ چلتا جا رہا تھا اچانک اس کی نظر ڈیجیٹل بینرز پر پڑتی ہے جو کشمیری رہنماؤں کا عکس پیش کرتے ہوئے اسلام آباد کی دیواروں پر آویزاں تھے ۔ وہ اک دفعہ تو سوچنے پر مجبور ہوگیا کیا یہ وہ ہی پاکستان ہے ۔ کیا پاکستان کی قیادت کے تخت پر مخلص لوگ براجمان ہوگئے ہیں ۔ اسے پورے اسلام آباد میں یہ ہی نظر آیا ۔ وہ سب کچھ بھول چکا تھا ۔ دھیرے دھیرے اسے ساری بات سمجھ آنا شروع ہوگئی تھی ۔ وہ گھر کی جانب تیز تیز قدم چل پڑا ۔ اسے سوشل میڈیا استعمال کئے کافی وقت بیت چکا تھا ۔ وہ گھر پہنچا وائی فائی کا بٹن دبایا ۔ موبائل جیب سے نکالا اس کے موبائل پر کوئی پاسورڈ نہیں تھا ۔ اس نے موبائل کھولا فیسبک لاگن کی تو پہلی پوسٹ دیکھ کر حیران ہوگیا ۔ کہ حکومت نے پاکستان کے نقشے کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ مکمل کرلیا ہے ۔ اور وہ نقشہ اقوام متحدہ میں پیش ہوگا اسے یقین نہیں آیا ۔ وہ فیسبک کی نیوز فیڈ دیکھتا گیا ۔ اور آگے کیا دیکھتا ہے برطانوی پارلیمنٹ کی دیوار پر آویزاں ڈیجیٹل بینر کشمیر کیلئے حق کی آواز بلند کر رہا ہے ۔ وہ پوسٹ پڑھتا گیا اور کیا دیکھتا ہے کراچی بین الاقوامی ہوائی اڈہ کشمیری رہنماؤں اور کشمیر کے حق میں لگے بینرز سے سجا ہوا ہے ۔ اس نے پڑھا کی سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا جائے گا ۔ وہ پوسٹ پڑھتا گیا ایک پوسٹ پر آکر وہ رک گیا ۔ وزیر اعظم کے آفیشل فیسبک پیج مجاہد گیلانی خطاب کرتے نظر آئے ۔ بہت کچھ ایسا اس کی بصارتوں سے ٹکرایا ۔ اس پر سکتہ طاری ہوچکا تھا ۔ وہ بہت کچھ اپنے قلم کی نوک کے نذر کرنے کیلئے جمع کر چکا تھا اس کے خیالات اس کے قلم پر مضبوط گرفت کر رہے تھے ۔ قلم میں جان آگئی تھی لیکن اس کے بدن پر سکتہ طاری تھا ۔

وہ سمجھ گیا تھا کہ کس شخصیت کی آج آواز گونج رہی ہے ۔ وہ پر سکون تھا اس کی مکمل تھکاوٹ کسی اجنبی راستے کی مسافر بن چکی تھی ۔ وہ اپنے خیالات کی دنیا میں گم ہو چکا تھا ۔ کوئی اسے اس خیالات سے نکالنے کیلئے موجود نہ تھا ۔ اچانک ڈیجیٹل شمع بجھ گئی اسے پنکھے کی ہوا آنا ختم ہوگئی ۔ اور اسی لمحے وہ وہ اپنے خیالات کے محور سے نکل چکا تھا ۔ وہ اٹھا اس کے قدموں میں جان آگئی تھی ۔ وہ وضو کرنے کیلئے چل پڑا ۔ وضو مکمل کرکے اس نے دو رکعت نماز ادا کی اور دونوں ہاتھ بلند کر کے اس ایک شخصیت کیلئے دعا مانگنا شروع کردی اس کی آنکھیں پھر بھیگ چکی تھیں ۔ اور اس کے لبوں سے دعا نکل رہی تھی اے اللہ اس شخصیت کو سلامت رکھنا اس کی حفاظت فرمانا اس کی عمر میں اضافہ فرما ۔ اور نجانے کس لمحے دعا مانگتے مانگتے اس کی آنکھ لگ گئی ۔ اس کو معلوم ہوچکا تھا ماضی کی شہنائیاں بج رہی ہیں لیکن کسی اور کے ہاتھوں سے ۔ اسے معلوم ہوچکا تھا اس ایک شخص کی آواز ہزاروں سال گونجے گی ۔ (آمین)

Shares: