آزادی کی شفق تحریر:عاصم مجید لاہور

0
62

آزادی کی شفق
عاصم مجید لاہور

دنیا میں حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
نئے اتحاد سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان بھی اپنی منزلیں متعین کر چکا ہے۔
چین کا دنیا بھر میں تجارتی منصوبہ ترقی پذیر ممالک میں مقبول ہو چکا ہے۔ چین کی معاشی ترقی کا دارو مدار بہت حد تک اسی تجارتی منصوبہ پر ہے۔ پاکستان میں بننے والا سی پیک چین کے تجارتی منصوبہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے۔ سی پیک چین کو گلگت بلتستان کے ذریعے جوڑتا ہے۔ انڈیا نے گلگت بلتستان، آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھا اور مقبوضہ کشمیر کی قانونی حثیت تبدیل کر دی۔
جس سے واضح طور پر چین و پاکستان کو چیلینج کیا گیا۔ جوابا چین نے لداخ میں انڈیا کی درگت بنائی اور پاکستان نے کچھ دن پہلے مقبوضہ کشمیر کو اپنے نقشے میں شامل کر لیا ہے۔ چین کو اربوں ڈالر کے منصوبہ کو محفوظ کرنے کے لیے انڈیا کی مداخلت قطعی طور پر قبول نہیں۔ لہذا چین کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ لداخ پر چین کا قبضہ کا نتیجہ چند ماہ بعد سامنے آ سکتا ہے، ممکن ہے کہ چین انڈیا کی فوج کی سپلائی لائن کاٹ ڈالے۔
موسم سرما میں سرینگر کے جوزیلا پاس سے ہوتے ہوئے منالی کے راستے روہتانگ پاس کے ذریعے لداخ پہنچنے کے راستے پر برف کی دبیز چادر جمی رہتی ہے۔ جو کہ انڈیا کی فوج کے لیے بہٹ مشکلات لا سکتی ہے۔
گزشتہ ایک سال سے حکومت پاکستان نے کافی موثر انداز میں مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر کیا ہے۔ حکومت پاکستان کے کئی وزرا سوشل میڈیا پر انڈیا کا بھیانک چہرہ دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے اخبارات میں کئی آرٹیکل لکھے گئے ہیں۔ امریکہ و برطانیہ کی پارلیمنٹ میں کشمیر کے لیے آوازیں بلند کی گئی ہیں۔ اور کچھ ممالک کے سربراہوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بات کی ہے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے لیے وزرا خارجہ کا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ جنگلات کے تحفظ اور کورونا وائرس کی روک تھام میں دنیا بھر میں پاکستان کی تعریف ہوئی ہے جبکہ انڈیا کا منفی چہرہ دنیا بھر کے سامنے آیا ہے۔ انڈیا پورے خطہ میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ بلکہ دنیا بھر میں واحد ہندو ریاست نیپال بھی انڈیا سے نظریں پھیر چکا ہے۔
حکومت پاکستان کلبھوشن کے معاملہ پر انڈیا کو دنیا بھر میں دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہے۔کلبھوشن اور انڈیا مزید بدنامی سے بچنے کے لیے اپیل بھی نہیں کرنا چاہتے۔ مگر حکومت پاکستان بین الاقوامی عدالت کی رو سے کلبھوشن کا کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلا رہی ہے۔ جس کی ہر پیشی پر نہ صرف انڈیا اور پاکستان کا میڈیا کوریج دے گا بلکہ دنیا بھر کا میڈیا اس کیس پر بولے گا۔ جب کلبھوشن کو ساری دنیا کے سامنے دہشتگردی کے اعتراف میں سزا ہو گی تو پوری دنیا انڈیا کا سفاک دہشت گردی والا چہرہ دیکھے گی۔
ان تمام حالات میں نظر یہی آ رہا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت پاکستان اپنے راستے متعین کر چکی ہے۔
پاکستان کا مقبوضہ کشمیر کو نقشہ میں شامل کرنا بہت سارے رستے کھول سکتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو اپنا علاقہ قرار دے کر قانونی حثیت سے فوج کو داخل کروا سکتا ہے۔ اور جس دن یہ کام ہو گیا تو اللہ کی مدد سے کشمیر ضرور آزاد ہو گا۔ اسی طرح حکومت پاکستان سید علی گیلانی کو یوم آزادی پر نشان پاکستان دینے جا رہی ہے۔ جس کا مطلب آزادی کشمیر کے لیے کوشش کرنے والوں کو حکومت پاکستان حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے۔
مگر حکومت پاکستان کو کشمیر کے محسنوں کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ جن کو بیرونی دباو پر پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ جو ہر موقعہ پر کشمیر کی آزادی کے لیے گلی کوچوں میں عوام کو یک زبان کر دیا کرتے تھے۔ اگر ان کا کیس اقوام متحدہ میں احسن انداز میں لڑا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ان پر پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
ہم پاکستانی پر امید ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ دعا گو ہیں کہ حکومت پاکستان کی مظلوم کشمیریوں کے لیے جو بھی مخلص کاوشیں ہیں وہ جلد رنگ لائیں۔ ان شا اللہ پاکستان مکمل ہونے کو ہے۔ جلد اس پار کے لوگ اس پار جائیں گے۔ ہمارے دریا آزاد ہوں گے۔ شہ رگ چھڑائی جائے گی۔ کشمیر جلد پاکستان بنے گا۔
اِس پار ملی تھی آزادی
اُس پار بھی لیں گے آزادی
ان شا الل

Leave a reply