عظیم الشان فتح
ثناء صدیق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح سلامت مدینہ میں تشریف لانے سے کفار مکہ اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھنے لگے ان کی تمام تر کوشش جوش وجذبہ ترجحات خواہشات مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے صرف ہونے لگی نبی مکرم اور ان کے ساتھوں کو ختم کرنے کا اہتمام قریش مکہ کے نزدیک سب سے اہم اور مقدم تھا اس طرح وہ لوگ اپنی مخالفتیں اور رقابتیں بھلا کر اپنی تمام طاقتیں اس کام کے لیے صرف کرنے پر آمادہ ہو گئے مکہ اور مدینہ کے درمیان تین سو میل کا فاصلہ تھا مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے جنگی تیاریوں کے ساتھ ساتھ راستے کے قبائلوں کو بھی ساتھ ملانا تھا یا کم از کم ان کو اپنا ہمدرد بنانا لازمی تھا اس آنے والے طوفان سے رسول پاک ایک دور اندیش اور ذی شعور سپہ سالار ہونے کے ناطے محسوس کر چکے تھے اللہ تعالی کیی طرف سے حفاظت خوداختیاری کی اجازت مل چکی تھی دین اسلام میں داخل ہونے والوں کی راہ سے رکاوٹیں اٹھانا بھی ضروری تھا مسلمانوں کی جمعیت مدینہ منورہ میں چار سو سے زیادہ نہ تھی سامان اور طاقت کے اعتبار سے مسلمان کمزور و ضعیف تھے کفار کا ظلم اور سازشیں ان کو بار بار تنگ کرتے مسلمانوں کی عربی حمیت و شجاعت جوش میں آتی مگر وہ اس کام کے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت ضروری چاہتے تھے اب جب کہ اسلام کی صداقت اور ایمانی طاقت ثابت ہو گی اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم و مصائب نے یہ ثبوت دیا کہ اسلام کے ساتھ محبت کسی خوف یا لالچ سے تعلق نہیں رکھتی تو اللہ کی طرف سے شریروں کو سزا دینے اور اپنی حفاظت آپ کرنے کی اجازت آ گی واقعات کے تسلسل سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی مکرم جنگ کو صلح اور انتقام کو درگزری پر ےترجیح دی مکہ کا ایک سردار کرز بن جابر نے ایخ جماعت کے ساتھ مدینہ کے ساتھ چراگاہ پر چھاپہ مارا اور مسلمانوں کے بہت سے اونٹ لے کر چلتے بنے مسلمانوں نے اس صورت حال میں مقام سفوان تک تعاقب کیا لیکن دشمن کے نکلنے کی وجہ سے مجبورا واپس لوٹ آئے یہ مکہ کی طرف سے صاف اور کھلی دھمکی تھی ادھر دوسری تدبیروں سے بھی وہ غافل نہ تھے ایک طرف کفار مکہ کا گٹھ جوڑ عبداللہ بن ابی منافق سے تھا دوسری طرف یہودی قبائل کے ساتھ خط و کتابت جاری رکھی اور مسلمانوں کے خلاف مخالفت پے آمادہ کیا اسی سال شعبان میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہو گیا اور چند ہی روز بعد رمضان کے روزے فرض ہو گئے شروع رمضان میں یہ خبر مدینہ پہچہی کہ مکہ کا ایک قافلہ شام آ رہا ہے مدینہ کے اطراف سے گزرے گا نبی مکرم مکہ والوں پر رعب طاری کرنے کے لیے اور کرز کے حملہ کا جواب دینے کے لیے انصار و مہاجرین کی جماعت لے کر مکہ والوں کا قافلہ روکیں تا کہ ان کو پتہ چلے مدینہ والوں سے بگاڑ ان کی تجارت کے لیے مضر ہے یہ جمعیت جنگ کے ارداے سے نہیں گئی تھی بلکہ اس کا مدعا تخویف و تادیب تھا جس کا نتجہ یہ ہوا مکہ والوں کا قافلہ مسلمانوں کی جمعیت سے با خبر ہو گیا امیر قافلہ ابو سفیان اپنے قافلے کو لے کر بچ نکلا اس نے صمصم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا مسلمانوں کے حملے سے ہماری مدد کرو اور اپنے اموال بچاو اس خبر کے ساتھ ہی ابو جہل مکہ سے ایک ہزار کی جرار فوج لے کر نکلا جس میں سات سو اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے یہ لشکر ہر طرح کیل کانٹ سے لیس تھا اس کے سب سپاہی زرہ پوش تھے گانے والے اور رجز پڑھنے والے بھی ہمراء تھے عباس بن عبدالمطلب عتبہ بن ربعیہ امیہ بن خلف نضر بن حارث ابوجہل کل تیرہ آدمی کھانا کھلانے والے تھے ابو سفیان مکہ پہنچ گیا مسلمانوں کی جمعیت واپس مدینہ آ گی
اس غزوہ کو غزوہ بدر اولی بھی کہتے ہیں (سیرت ابن ہشام ص 288)
ابو سفیان نے ابو جہل کو خبر بھیجی ہم واپس خیرو عافیت سے آ گئے ہیں اب تم بھی واپس ا جاو لیکن ابو جہل اپنے لشکر کے غرور میم مصر رہا ابوجہل صرف قافلہ بچانے نہیں نکلا تھا بلکہ ابن حضرمی قریش کا حلیف مسلمانوں کے ہاتھوں جن کو نبی مکرم نے رجب میں بطن نخلہ کی طرف حالات معلوم کرنے بھیجا تھا مارا گیا ابو جہل نے ابن حضرمی کے قتل کا بہانہ جنگ کی مکمل تیاری کر لی تھی اور مدینہ پر روانہ ہونے والا تھا ضمضم قافلہ والوں کی طرف سے ستمداد کے لیے پہنچا اور ابو جہل جو پہلے ہی تیار تھا وہ روانہ ہو گیا نبی مکرم کو معلوم ہوا اور ساتھہ یہ بھی پتہ چلا کہ ابوجہل عتبہ شبیہ ولید حنظلہ عبیدہ عاصی حرث طعیمہ زمعہ عقیل ابو الختجرہ مسعود منبہ نوفل سائب رفاعہ وغیرہ تمام بڑے سرادار اس لشکر میں موجود ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر ایک مجلس مشاورت کی اور اصحاب کی رائے پوچھی اول سیدنا ابوبکر عمر فاروق سیدنا مقداد رضی اللہ عنھم نے بہادری کے کلمات کہے اور کہا ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے سیدنا موسی علیہ اسلام سے کہا تھا کہ (فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون مائدہ) تو اور تیرا رب لڑے ہم تو یہیں بیٹھے تماشا دیکھں گئے
اس کے بعد آپ نے فرمایاکہ لوگوں! ان کفار سے لڑائی کے بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے اسے دوبارہ فرمانے سے اپ کی مرضی یہ تھی کہ انصار کی رائے معلوم کی جائے کونکہ مزکورہ اصحاب مہاجرین میں سے تھے اور انصار سے جس بات پر بیعت کی گی تھی وہ مدینہ پر حملہ آور کو روکنے کی تھی مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کی نہیں تھی انصار فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھ گے اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ ہماری جانب ہے آپ نے فرمایا ہاں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم آپ پر ایمان لائے آپ کو اللہ کا رسول یقین کرتے ہے اور یہ کیسے ممکن ہے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مقابلہ کرے اور ہم بیٹھے رہے ہم کفار سے کیا ڈرے گے یہ ہماری جیسے آدمی ہیں ہم حکم دین ہم سمندر میں کود پرو ہم بلادریغ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تکمیل کریں گے آپ صلی اللہ نے اصحاب سے مطمئن ہو کر روانگی کا اردہ فرمایا جنگ میں لڑنے کے لیے کل تین سو دس یا بارہ یا تیرہ آدمی تھے شہر سے باہر آپ نے اسلامی لشکر کی خبر لی ان تین سو تیرہ میں بعض چھوٹی عمر کے لڑکے تھے جو جنگ کے قابل نہیں تھے آپ نے ان واپس جانے کا حکم دیا بعض نے منت کرتے ہوئے جنگ میں جانے کی اجازت حاصل کر لی اسلامی لشکر کے سازوسامان کی یہ حالت تھی صرف دو گھوڑے تھے جن سیدنا زبیر اور مقداد رضی اللہ عنھم سوار تھے سترہ اونٹ تھے ایک ایک اونٹ پر تین تین چار چار آدمی سوار تھے نبی پاک جس اونٹ پر سوار تھے اس پر تین شخص اور سوار تھے بعض لوگ پیدل ہی چل رہے تھے یہ اسلامی لشکر بدر پہنچا تو کفار خو بلند زمین پر خیمہ زن پایا مسلمانوں نشیبی اور ریتلی زمین پر خمیہ زن ہونا پڑا مگر بدر کے چشموں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا نبی مکرم نے مسلمانوں کو پانی کفار کے لیے روکنے سے منع فرمایا اصحاب نے آپ کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی تیار کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں رہتے اور دعا مانگتے مسلمان کفار کے مقابلے میں عشرعشیر بھی نہ تھے جب مسلمان جا کر خمیہ زن ہو گئے کفار نے عمیر بن وہب جمحی کو راغ رساں بنا کر بھیجا اور اس نے اطلاع دی کہ مسلمانوں کی تعداد تین سو دس سے زیادہ نہیں اور ان میں صرف دو سوار ہیں کفار کے غرور کا اندازہ اس بات سے لگائے عتبہ بن ربیعہ نے جب یہ قلت سنی تو کہا ان تھوڑے سے آدمیوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہماری تعداد زیادہ ہمیں واپس جانا چاہے لیکن ابو جہل نے کہا سب کا خاتمہ ہی کر دینا چاہے
باالااخر سترہ رمضاندو ہجری میدان جنگ گرم ہوا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جھونپڑی میں گئے دعا کی اور عرض کی
اللھم ان تھلک ھذہ العصابتہ من اھل الایمان الیوم فلا تعبد فی الارض ابدا
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر یکایک تھوڑی دیر کے لیے غنودگی طاری ہو گی اس کے بعد آپ مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور فرمایا کفار کی فوج کو شکست ہو گی اور وہ بھاگ جائیں گئے (سیھزم الجمع ویولون الدبر القمر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جنگ میں ابتدا نہ کرنا مسلمانوں اسی سے دوتین زیادہ مہاجر تھے باقی انصار تھے انصار میں 61 قبیلہ اوس سترہ خزرج کے لوگ تھے طرفین سے صفوف جنگ سے اراستہ ہوئیں رسول پاک ہاتھہ میں ایک تیر تھا اس کے اشارے سے تسویہ تصوف فرماتے تھے اس کے بعد کفر کے لشکر سے عتبہ شعیبہ ولید نکل کر میدان میں آ گئے اور جنگ کے لیے للکارا انصار میں سے عوف معوذ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم نکلے عتبہ نے کیا من انتم انہوں نے کیا رھط من انصار عتبہ نے نہایت متکبر سے کہا مالنا بکم حاجتہ پھر چلا کر کیا محمد اخرج الینا اکفاء نامن قومنا یہ سن کر عتبہ کے مقابلے میں سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ شبیہ کے مقابلے میں عبیدہ بن الحرث رضی اللہ عنہ اور عتبہ کے بیٹے ولید کے مقابلے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ صحابی مقابلے میں مقابلہ شروع ہوا باپ اور بیٹا ایک ہی وار میں قتل ہو گئے
شبیہ نے سیدنا عبیدہ کو زخمی کر دیا ضرب کاری لگی یہ دیکھ کر سیدنا حمزہ اور علی نے شبیہ کو قتل کر دیا سیدنا عبیدہ کو اٹھا کر نبی مکرم کی خدمت میں لائے بعض کفار کی صفیں حملہ آور ہوئی مسلمان جوان مردی سے کڑے نتجہ یہ ہوا کفار اپنے ستر بہادر قتل اور ستر کو اسیر بنا کر بھاگ کھڑے ہوئے جنگ مطلوبہ شروع ہونے کے بعد نبی مکرم ایک سائیبان کے نیچے کھڑے جنگ کا نظارہ دیکھ رہے تھے مجاہدین کو ہدایات دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا بنو ہاشم جنگ مین اپنی خوشی سے نہیں ائے بلکہ مجورا لائے گئے ہیں ان کے ساتھ رعایت کرنی ہے اور عباس بن عبدالمطلب کو قتل نہیں کرنا چاہے اور اسی طرح ابو الختجری کے ساتھ درگزر کا حکم دیا مجزر بن زیاد رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ابو الختجری کے ساتھ ہوا اپ نے کہا ہم کو حکم ہے تم سے نہ لڑے لہذا ہمارے راستے سے ہٹ جاو ابو الخجری اپنی ایک ساتھی کو بچانا چاہتے تھے جن کو مجذر قتل کرنا چاہتے تھے لیذا ابو الخجری مقتول ہوا امیہ بن خلف اور اس کا بیٹا علی بن امیہ دونوں اپنی جان بچانے کے لیے پھر رہے تھے امیہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان زمانہ جاہلیت کی دوستی تھی عبدالرحمن نے سن کو دیکھہ کر ہاتھ پکڑ کر چلے چلے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھس تو آواز لگائی اور چند انصار کو اپنی طرف متوجہ کیا حضرت عبدالرحمن نے ان کو بچانا چاہا مگر حضرت بلال نے ایک نہ سنی دونوں کو قتل کر دیا ایک صحابی عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ نبی مکرم کے پاس کجھورے کھاتے ہوئے آئے اور پوچھا میں کفار سے لڑتا مارا جاوں تو جنت میں چلا جاوں گا تو آپ نے فرمایا ہاں وہ اسی وقت بقیہ کجھورے پھنک کر تلوار لیتے ہوئے کفار کو جا پڑے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے جب یہ لڑائی جاری تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر خاک لی اور دشمن پر پھنک دی اسی وقت لشکر کفر نے بھاگنا شروع کر دیا اتفاقا ایک انصاری نو عمر لڑکے سیدنا معاذ بن عمرو کا کا مقابلہ اتفاقا ابو جہل سے ہو گیا جو زرہ وغیرہ پہنے ہوئے تھا سیدنا معاذ نے موقع پا کر اس کے پاوں رزہ سے خالی دیکھ کر وار کیا اس کا پاوں کٹ کر الگ جا پڑا ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے یہ دیکھا تو سیدنا معاذ پو وار کیا سیدنا معاذ کا بایاں ہاتھ مونڈھے سے کٹ گیا اپ اسی طرح لڑتے رہے جب تنگ کرنا شروع کیا تو جھٹکا لگا الگ کر دیا اس کے بعد انصار کے دوسرے نو عمر معوذ بن عفراء ابو جہل کے قریب پہنچا اور تلوار کی ایسی ضرب لگائی نیم بسمل ہو گیا جن کفار نے میدان خالی چھوڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ابو جہل کی تحقیق کرو سیدنا عبداللہ بن مسعود نے نیم مردہ حالت میں پایا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور کہا اللہ نے دشمن اللہ نے کیسا ذلیل کیا ہے ابو جہل نے جنگ کا نتجہ پوچھا کہا فتح مسلمانوں کی ہے یہ کہ کر سیدنا عبداللہ بن مسعود اس کا سر کاٹنے لگے تو کہتا ہے میرا سر گردن اور مونڈے سے ملا کر کاٹنا تاکہ پتہ چلے سردار کا سر ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود نے ابوجہل کا سر نبی پاک کے قدم مبارک میں رکھا آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اس لڑائی میں چودہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم شہید ہوئے چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے
اللہ اللہ اس زوق وشوق جہاد کے کہا کہنے جب تک مسلمانوں میں ایسا جذبہ ایمان رہا وہ کفار پر غالب رہے اور جب ان کے ایمان میں کمزوری آئی تو پھر مسلمان مغلوب ہو گئے
رسول پاک نے مال غنیمت ایک جگہ جمع کر کے عبداللہ بن کعب جو بنو نجار سے تھے ان کے سپرد کیا عبداللہ بن رواحہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنھم کو مدینہ کے بالائی بستیوں میں فتح کا سنانے بھیجا سیدنا اسامہ بن زید جو بنی پاک کے مدینہ میں نائب تھے فرماتے ہیں ہمیں فتح کی خوشخبری اس وقت پہنچی جب ہم سیدنا رقیہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر رہے تھے یہ خبر مدیبہ میں 18 رمضان کو پہچی یہان کے بعد مقام عرق الظبیہ پہنچے یہاں عقبہ بن ابی معیط کی گردن مارنے کا حکم ہوا جو نبی مکرم کے سخت دشمن اور ابوجہل کا ہمسر تھا نضر بن حارث کو سیدنا علی اور عقبہ کو سیدنا عاصم بن ثابت انصاری نے قتل کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنھم خے ساتھ تیز رفتاری سے روانہ ہوئے اسیران اور ان کے محافظ دستے کو پیچھے چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اس کے ایک دن بعد قیدی بھی مدینہ پہنچ گئے
ابو جہل کو جب معلوم ہوا مجھے دو نوجوانوں معاذ اور معوذ نے مارا ہے اس وقت وہ قریب الموت تھا اس نے افسوس کیا کہ کاش مجھے ایک کسان کے سوا کسی اور نے مارا ہوتا (صحیح بخار کتاب المغازی حدیث 4020)
صحابہ اکرام کے کیا کہنے ان کے مثالی ایمان اور ان کی دینی غیرت اور بے بہا ایمان دیکھ کر قرآن نے یوں گواہی دی
اشداء علی الکفار رحماء بینھم
اور ڈاکڑاقبال نے کیا خوب کہا
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن








