وزیرِ رسالت ِ مآبﷺ ،جانشینِ مصطفیﷺ ، نظامِ عدل کے آفتاب، دُعاۓ مصطفیﷺ ، عاشقِ مصطفیﷺ، آسمانِ رفعت کے دَرَخشاں ماہتاب، خلیفہ دوئم امیر المؤمنین حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ وہ ہستی جن کی تعریف و کمالات کا احاطہ کسی طور ممکن ہی نہیں۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام: عمر
کنیت: ابو حفص
لقب: فاروقِ اعظم
39 مَردوں کے بعد رسولِ کریمﷺ کی دعا سے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں ایمان لاۓ۔
حضرتِ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
"حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا مسلمان ہونا اسلام کی فتح تھی ، اُن کی ہجرت نصرِ الہی تھی اور اُن کی خلافت رحمتِ خداوندی تھی، ہم میں سے کسی کی یہ ہمت و طاقت نہیں تھی کہ ہم بیتُ اللہ شریف کے پاس نماز پڑھ سکیں مگر حضرتِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے کے بعد مشرکین سے اس قدر جنگ و جدال کیا کہ انھوں نے عاجز آکر مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ دیا تو ہم بیتُ اللہ شریف کے پاس اطمينان سے اعلانیہ نماز پڑھنے لگے۔
حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے اپنا اسلام علی الاعلان ظاہر کیا وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی ہیں۔
حضرتِ علی کرم اللہ وجھہُ الکریم فرماتے ہیں کہ:
"عمر(رضی اللہ تعالی عنہ) کے علاوہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اعلانیہ ہجرت کی ہو۔
امیر المؤمنین حضرتِ فاروقِ اعظم کی شان و فضيلت کا اندازہ رسولِ کریمﷺ کے اس فرمان سے لگا سکتے ہیں کہ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لَو کَانَ بَعدِی نَبِیُّ لَکَانَ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِِ۔
یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔
حضرتِ ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:
اللہﷻ نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا ہے۔
طبرانی اوسط میں حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا:
مَن اَبغَضَ عُمَرَ فَقَد اَبغَضَنِی
یعنی جس نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔
اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔
حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ زہد و ورع اور تواضع و حلم کی بہترین مثال تھے۔
حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ روزانہ گیارہ لقمے سے زیادہ طعام ملاحظہ نہ فرماتے۔
جمادی الاخریٰ 13 ھجری کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوۓ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا دورِ خلافت 10 سال اور چند ماہ پر محیط رہا۔ آپ نے اپنے دس سالہ دورِ خلافت میں بے شمار کارنامے سر انجام دیے، زمین عدل و داد سے بھر گئی، دنیا میں راستی و دیانت داری کا سکہ رائج ہوا، مخلوقِ خدا کے دلوں میں حق پرستی و پاکبازی کا جذبہ پیدا ہوا، فتوحات اس کثرت سے ہوئیں کہ آج تک ملک و سلطنت کے والی و سپاہ و لشکر کے مالک ورطہ حیرت میں ہیں۔
ابنِ عساکر نے اسماعیل بن زیاد سے روایت کی کہ حضرتِ علی کرم اللہ وجھہُ الکریم کا گزر مسجدوں کے پاس سے ہوا جن میں قندیلیں روشن تھیں ، انھیں دیکھ کر فرمایا کہ اللہﷻ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر کو روشن فرماۓ جنہوں نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکمل فضائل بیان کرنا ناممکن ہے۔
نمازِ فجر میں ایک بد بخت ابولولو فیروز نامی(مجوسی یعنی آگ پوجنے والے) کافر نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر خنجر سے وار کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ تیسرے دن شرفِ شہادت سے مشرف ہوگۓ۔ بوقتِ شہادت عمر شریف 63 برس تھی۔
حضرتِ سیدنا صھیب رضی اللہ تعالی عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضہ مبارکہ کے اندر حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلوۓ انور میں مدفون ہوۓ۔
اللہﷻ کی ان پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
آمین۔

اسلام آباد
@aqeela_raza

Shares: