آج سے پچھتر سال پہلے مسلمانانِ ہند نے ہندو اور برطانوی سامراج سے جو جنگ لڑی تھی ، وہ صرف اک خطے کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے جداگانہ تشخص کے بقا کے لیے تھی ۔
اور اس جنگ کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جب مسلمان کو ”مسلا” کہا گیا تھا۔ اپنے الگ وجود الگ نظریے کا ادراک کرنے کے بعد ہی اک منزل اک نشاں کی جانب چلتے وہ راہ ِجنوں کے مسافر اپنا مقصد پانے کے لیے پریقیں تھے۔
اور 75 سال پہلے یہ مقصد حاصل بھی ہو گیا۔ مگر آج 75 سال بعد کے حالات دیکھ کر بے ساختہ فیضؔ کا کہا یاد آتا ہے کہ،
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گریدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر
چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
کیونکہ آج 75 سالہ مملکت خداداد پھر سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ مگر کیا یہ جنگ پہلے دن سے ہی ہمارا مقدر تھی؟
یہ جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق کھنگالنا ہوں گے۔ گذشتہ سالوں میں اس ارض پاک کے ساتھ برتا جانے والا احوال دیکھنا ہو گا تبھی ہم کوئی فیصلہ کر پائیں گے۔ میری دانست میں یہ 75 سال مختلف ادوار جیسے تربیتی ،تخریبی، تعمیری ،تعبیری کے تناظر میں دیکھے جائیں تو صورت حال واضح ہو سکتی ہے کہ ہم آج کس مقام پہ موجود ہیں۔
﴿ تعبیری دور ﴾
1947 ء سے 1967 ء
یہ بیس سالہ دور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے تعبیری اہداف قائم کرنے کا دور تھا۔
آزادی کے ابتدائی بیس سال وہ سال تھے جب عزم جواں تھا۔ ہمت تازہ تھی اور جنوں لہو کے ہر قطرے میں موجزن تھا۔کیونکہ نوزائیدہ ریاست کو کئی محاذوں کا سامنا کرنا تھا۔ سو انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1949 میں ”قرارداد مقاصد ” منظور کی گئی جس کے مطابق پاکستان کا آئینی ڈھانچہ یورپی نہیں بلکہ اسلامی جمہوریت اور نظریات پہ مبنی ہونا طے تھا۔
چونکہ ابھی تربیتی دور کا آغاز تھا سو ہر سال اک نیا سنگ میل عبور ہوتا گیا۔
آنکھوں کی چمک ہر گام بڑھتی گئی۔ اور تب تب جنون نظر آتا گیا جب جب نعرہِ پاکستان بلند کیا گیا۔
پھر چاہے وہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینا ہو یا قومی ترانے کی منظوری، معاشی ترقی کے ضامن اسٹیٹ بینک کا قیام (1948) ہو یا ملک مقدم کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنا مقصود ہو۔یا پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اوول کے میدان میں انگلینڈ کے خلاف پہلی فتح ہو یا دہائیوں تک فضاؤں پہ راج کرتی پاکستان ائیر لائنز کا قیام (1955)۔
یا ہاکی ٹیم کا اولمپکس میں جیتا پہلا گولڈ میڈل، (1960)،یا سوئی کے مقام پہ گیس کے وسیع ذخائر کی دریافت(1952)۔
سبھی سنگ میل اسی پیام کا عملی ثبوت تھے کہ ،
تجھ سے ہے میری تمناوئں کی دنیا پُرنور
عزم میرا ہے قوی ، میرے ارادے ہیں غیور
میری ہستی میں انا ہے، مری مستی میں شعور
جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
اے میرے پیارے وطن
اگرچہ اس بیس سالہ عرصے میں سیاسی ایوانوں میں مارشل لاء (1958) اور اسمبلیوں کی تحلیل (1953) کی گونج بھی گونجتی رہی۔ مگر حالات بہتر سے بہتری کی طرف ہی گامزن تھے۔
اور سب سے بڑی کامیابی 1965 کی وہ جنگ تھی، جو بزدل دشمن نے اس سوچ کے تحت چھیڑی تھی کہ یہ گرتا لڑکھڑاتا ملک کیونکر اپنا دفاع کر سکے گا۔ مگر عظیم قوم نے غیور افواج کے ساتھ مل کر دشمن کو شکست فاش دی۔ تب ہر پاکستانی کے لب پہ اک ہی نغمہ تھا کہ
میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
﴿تربیتی دور ﴾
1967 سے 1987
یہ دور جہاں پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم رہا۔ وہیں یہ ماہ و سال سازشی عناصر کی رچائی چالوں کے زد میں بھی رہے۔
گویا تعمیری و تخریبی دونوں حالات مل کے اعصابی تربیت کرتے رہے۔
کھیل کے میدان میں اس بیس سالہ عرصے میں سبز پرچم کبھی جہانگیر خان اور کبھی جان شیر خان کے دم سے لہلہاتا رہا۔مگر اصل مزہ اس جیت کا تھا جو ہاکی ٹیم نے ازلی دشمن کو ایشین گیم (1970) میں دی تھی۔
مگر افسوس پاکستان اس دشمن کو سیاسی محاذ پہ نہ ہرا سکا۔ اور اس دشمن نے پاکستان کی اندرونی کمزوریوں کو مزید ہوا دیتے 1971 میں مشرقی پاکستان پہ حملہ کر دیا۔ آہ! اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہو کے پاکستان کو اپنے اک حصے سے محروم ہونا پڑا۔
تب پھر سے سہاگ اجڑے، عزتیں پامال ہوئیں، لہو بہا۔ مگر اک الگ نظریے کے لیے نہیں۔ بلکہ ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے۔
اس روز شہداء پاکستان فریاد کرتے رہ گئے کہ
رشتہ دیوار و در تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
پاکستان قائم رہنے کے لیے ہی بنا ہے ۔ سو اک سانحے سے گزر کے بھی زخمی دل زخمی روح لیے سفر پھر سے شروع ہوا۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے (1974) ملکی ترقی پہ توجہ مرکوز کی گئی۔ معاشی ترقی کی ضامن پاکستان سٹیل ملز نے کام کرنا شروع کیا(1981)۔
اور اگلے ہی برس ہاکی ورلڈ کپ میں شاندار فتح نے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا (1982)۔ اور سب سے بڑھ کے دفاعی استحکام کے لیے عبدالقدیر قدیر خان سائنس لیبارٹریز قائم کی گئی (1976)۔اور ڈاکٹر عبدالسلام (1979) پہلا نوبل پرائز جیتنے میں کامیاب ٹہرے۔
گویا پاکستانی عوام سمجھ گئے ہوں،
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے
﴿تعمیری دور ﴾
1987 سے 2007
یہ ماہ و سال بھلے ہی معاشی و دفاعی شعبے میں کئی انقلاب برپا کر گئے۔مگر اس بیس سالہ عرصے میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔
کبھی سمبلیوں کی تحلیل (1988) نے تعمیری اہداف سے دور کیا تو کبھی ایمرجنسی (2007) کے شکنجے نے ملکی حالات پہ خاصا اثر ڈالا۔
مگر اس سارے دورانیے میں بھی عزم بلند رہا اور اسی عزم سے تعمیری اہداف طے ہوتے رہے پھر چاہے وہ پہلے کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت (1992) ہو، یا میانداد کے چھکے سے دشمن کے چھکے چھڑوانے والی شارجہ کی فتح (1999)، یا جہانگیر خان کا مسلسل دسیوں بار سکواش اوپن چیمپئین شپ جیتنا ہو (1991)۔
مگر اس بیس سالہ عرصے میں پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ایٹمی طاقت (1998) کا مالک بننا تھا۔ گویا
ع چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں نہیں آئی
﴿ تخریب سے تعمیر تک ﴾
2007 سے 2022
2012 کے بعد جی ڈی پی گروتھ میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے ۔
اگرچہ ان پندرہ سالوں میں پاکستان کو سیاسی استحکام بھی نصیب ہوا ہے مگر ملک و قوم نے تخریبی اور تعمیری دونوں حالات سہے ہیں۔
کیونکہ گذشتہ سالوں میں دہشت گردی کی نذر ہزاروں جانیں ہوئیں ہیں ۔ مسجد، مزار، چرچ، پارک، تھانہ، بازار، سکول۔۔۔ شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں خون کے چھیننے نہ پڑے ہوں۔ اس دہشت گردی سے ملکی سکون تو متاثر ہوا ہی مگر ،
اس دورانیے کا سب سے تکلیف دو پہلو پاکستان کو عالمی سطح پہ تنہا کرنا تھا۔ 2009 میں سری لنکن ٹیم پہ ہوئے حملے نے پاکستان پہ نہ صرف کرکٹ کے دروازے اک دہائی تک بند رکھے۔ بلکہ سیاحتی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔
مگر سلام ہو ہماری افواج پاکستان کو۔
جنہوں نے آپریشن راہِ راست (2009)، راہِ نجات، اور حالیہ(2021) رد الفساد سے تخریبی قوتوں کا خاتمہ کیا ہے۔
پاک وطن سے شرپسندوں کا نشان مٹاتے شہادت کی منزل پاتے غیور کیپٹن بلال ظفر (2009) سے لے کر عزم تعمیر لیے جامِ شہادت نوش
کرنے والے لیفٹینینٹٹ جنرل(2022) سرفراز علی تک، سبھی شہداء ہمارا فخر ہیں۔ کیونکہ یہ امن انہی کی دی قربانیوں کا ثمر ہے۔ ورنہ کہاں وہ دور جب عالمی تنہائی کے مارے ملک میں زمباوے جیسی ٹیم بھی آنے سے انکاری تھی اور کہاں یہ دور کہ زمباوے سے لے کر آسٹریلین ٹیم (2022) بھی پاکستان آ کے پاکستانی زمیں پہ کھیل چکی ہے۔
اور تو اور پاکستان سپر لیگ کے 7 سیزن بھی ہو چکے۔
مگر حالیہ او آئی سی کانفرنس(2022) کا پاکستان میں انعقاد سب سے اہم سنگ میل ہے۔
بلاشبہ پاک فوج اور عوام دونوں ہی قابل تحسین ہیں جنہوں نے تخریب سے تعمیر کا سفر طے کر کے اک مثال قائم کی ہے۔ مگر یاد رہے،
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
آج 75 سالہ پاکستان صرف اور صرف اپنی قوم کے ساتھ کا ممتنی ہے۔ اسے اپنی بقا کے لیے کسی بیرونی ہاتھ کی ضرورت نہیں بلکہ عزم و ہمت سے سرشار اک دل اک جاں لیے اک قوم درکار ہے۔ سو ہمیں وطن عزیز کی پچھترویں سالگرہ پہ بحیثیت پاکستانی اپنا احتساب کرنے اور قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ
جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے وہ عہد کیا ہم نبھارہے ہیں
وطن کی راہوں میں ہم وفا کے گلاب کتنے کھلارہے ہیں
یہ کون ہیں جو ہمیں میں رہ کر ہمارے گھر کو جلارہے ہیں
چلو یہ سوچیں ہم آج مل کے