بازی پلٹ گئی یا اپوزیشن بھٹک گئی، نواز شریف مطمئن،ہواؤں کا رخ کیسے بدلا؟ اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

0
54

بازی پلٹ گئی یا اپوزیشن بھٹک گئی، نواز شریف مطمئن،ہواؤں کا رخ کیسے بدلا؟ اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کیا ہواوں کا رخ بدل چکا ہے۔؟کیا اپوزیشن لانگ مارچ کی منزل سے بھٹک کر سینٹ پر پڑاو کر چکی ہے۔؟ کیا شہباز اور حمزہ کے باہر آتے ہی مریم ملک سے باہر جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔؟ حکومتی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کیوں ہے۔؟آصف زرداری ایک دم سے پھر سب پر بھاری کیسے ہو گئے۔؟ نواز شریف مطمئن اور خاموش کیوں نظر آ رہے ہیں۔؟کیا ایمپائر نیوٹرل ہو چکا ہے، ؟

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کیا ایمپائر نیوٹرل ہونے کا امتحان اسی صورت پاس کریں گے جب حکومت اپوزیشن کے خفیہ ووٹ نہ توڑے جبکہ اپوزیشن کھلے عام حکومتی لوگوں کو ٹکٹوں کے وعدے کر کے فتح اپنا مقدر بنا لے اور اگر پھر بھی اپوزیشن کامیاب نہ ہوئی تو ایمپائر کے نیوٹرل ہونے کی گواہی کون دے گا۔؟سینٹ انتخابات کے بعد اور لانگ مارچ سے پہلے اور کیا کیا ہو گا۔؟کوئی شارٹ سیٹ اپ کے بعد شفاف انتخابات کا خواب سجائے بیٹھا ہے تو کوئی ان ہاوس تبدیلی کا۔۔ کوئی وفاق سے پہلے پنجاب میں تبدیلی کا خواہشمند ہے۔ تو کوئی چیئرمین سینٹ کو بدلنے کا۔ہر کوئی اپنی خواہشات کو ملک کی منزل تصور کیئے بیٹھا ہے۔ کوئی یہ تعویلات پیش کر رہا ہے کہ حکومت کی کشتی بیچ منجدھار میں پھنس چکی ہے اب صرف انہیں مشورے مل رہے ہیں اپنی مدد حکومت نے آپ کرنی ہے۔ اعتدال پسندEstablishmentہی ملکی مفاد میں ہے۔ سیانے کہتے ہیں کئی دفعہ ڈوبتے کو بچانے والے خود بھی ڈوب جاتے ہیں، عوامی ردعمل، بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری، اداروں کا کردار، سپریم کورٹ کا ردعمل اور سیاسی جماعتوں کا گھٹ جوڑ اور ان سب سے بڑھ کر عوامی غصہ واضح طور پر پیغام دے رہا ہے کہ اب مزید کمک دینے والے طوفان کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک ایک کر کے وہ تمام لوگ ہمت ہار رہے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان دوسرے حکمرانوں سے مختلف ہے، وہ موروثی سیاست کو دفن کر دے گا، وہ اپنے کسی دوست یا رشتے دار کو خام خواہ میں کردار نہیں دے گا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا‘ ایماندار لوگوں کی ٹیم بنائے گا‘ اہل افراد پر مشتمل کابینہ تشکیل دے گا‘ اداروں کو درست کر دے گا‘ چھوٹی کابینہ بنائے گا‘پرانے چوروں اور لٹیروں سے اپنی پارٹی کو محفوظ رکھے گا‘ میرٹ کا بول بالا ہو گا‘ عوام کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹنے کا نظام دفن کردیا جائے گا‘ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو گا‘ غلط بات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا‘ کسی کے آگے جھکے گا نہیں اور کسی بھی صورت نظریہ ضرورت کا شکار نہیں ہو گا۔ یہ کیا ہو رہا ہے کیا کسی نے کبھی سوچنے کی کوشش کی ہے۔ پورا سینٹ الیکشن ایک طرف اور اسلام اباد کی جنرل سیٹ ایک طرف۔ اور اس جنرل سیٹ پر حکومت کا وہ امیدوار جس کا اس جماعت سے تعلق نہیں ہے، جو پیرا شوٹ پر بیٹھ کر آیا تھا اور حکومت کے جانے کے بعد پہلی فلائٹ پر جائے گا۔ اگر حفیظ شیخ اس ملک کی معیشت کے لیے اتنا قیمتی ہے تو کہاں ہے عمران جان کے معاشی جادوگر جن کے زریعے عمران خان نے اس ملک کی تقدیر بدلنی تھی۔ ؟ کیا اس صورتحال میں جب ہر چیز نوشتہ دیوار ہے۔۔عمران خان سے نا امید ہونے والے ابھی بھی خطا پر ہیں،؟ کیا ابھی بھی عمران خان کے ووٹروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران خان نے ان لوگوں کو تبدیلی کی امید دلا کر دوبارہ مایوس کر دیاہے۔ کیا ابھی بھی وہ کبوتر کی طرح تباہی دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔؟

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اب لوگ تبدیلی کے نعرے پر یقین نہیں کریں گے اور دوبارہ اس انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے گھر بیٹھے رہیں گے یا انہی چوروں اور لٹیروں کی طرف لوٹ جائیں گے جن سے جان چھڑوانے کی امید انہیں خان کی طرف لائی تھی۔عثمان بزدار اور محمود خان کو دیکھ کر میرٹ پر ترس آتا ہے۔ نظریہ ضرورت کو حکمت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اخلاق کی اعلی مثالیں دینے والے جب جھوٹ کی وجہ سے اپنے کراچی کے ایم این اے فیصل واڈا کے متوقع تور پر فارغ ہونے کی صورت میں اسے ہر صورت اقتدار میں رکھنے کے لیئے سینٹ کا ٹکٹ دے دیتے ہیں تو عقل ورطہ حیرت ہے۔۔آخر کیون۔۔؟ کیونکہ ان کی پارٹی کے لیئے بڑی خدمات ہیں، تو کہاں گئی وہ اخلاق کی اعلی مثالیں جو ہمیں سنائی گئی تھی۔لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کے قافلے کے سالار اس وقت اپنی منزل اور پڑاو میں تزبزب کا شکار ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی میٹنگز میں اب لانگ مارچ کی بجائے سینٹ الیکشن ڈسکس ہوتا ہے۔ کیا پی ڈی ایم کا مقصد صرف سینٹ الیکشن اور عدم اعتماد کی کوشش تھا، کہاں ہے وہ جمہوریت کی بقا کی جنگ، کیا سول سپرمیسی کا مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔کیا ووٹ کو عزت مل چکی ہے، کیا کشمیر آزاد ہو چکا ہے، پاکستان کے خارجہ تعلقات میں انقلاب آ چکا ہے ملک کی معیشت ٹھیک ہو چکی ہے، عوامی مسائل ختم ہو چکے ہیں کیا ہر چیز سستی ہو چکی ہے اور مہنگائی کا قلعہ قمع ہو چکا ہے۔ اگر نہیں تو پھر کہاں ہے پی ڈی ایم کی تحریک۔ پھر کیا ہم یہ سوچنے پر حق بجانب نہیں ہیں کہ جب ان کی دم پر پیر رکھا جائے گا تو ہی انہیں عوام کے دکھ نظر آئیں گے۔ جب ان کی عدالتوں مین روزانہ پیشیاں ہوں گی جب ہی انہیں ووٹ کی عزت یاد آئے گی، جب ان پر نیب کے نئے ریفرنس بنیں گے تب ہی انہیں سول سپرمیسی اور عوامی مشکلات کا اندازہ ہو گا، بدقسمتی سے ہمارے رہنماوں کا شعور منزل ہی دھندلایا ہوا ہے۔ اور بس حالات کے بھروسے پر کسی سیاسی بہار کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے ووٹوں سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے مقابلے میں جیت جاتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ صرف پیش کی جا سکتی ہے بلکہ کامیاب بھی کرائی جا سکتی ہے۔ لیکن یوسف رضا گیلانی کے سنجیدہ و فکرمند چہرے کو پڑھنے والے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں وہ اپنی عزت کھو جانے کے ڈر سے پریشان تو نہیں ۔ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی اور پی ڈی ایم کے درمیان معاملات کے طے پاجانے سے اب کے پی میں جماعت اسلامی اپوزیشن کے امیدواروں کو ووٹ دے گی
یوں سینیٹ میں جماعت اسلامی دو میں سے ایک رہ جانے والی سیٹ کو ایک بار پھر دو بنا سکتی ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں ایک دوسرے کو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا طعنہ دینے والے سیاسی شطرنچ پر کھیل جیتنے کے لیئے دوبارہ ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن جب انہیں پتا چلتا ہے کہ سینٹ میں بیٹھنے کے بعد کابینہ میں بیٹھنا مشکل ہو جائے گا تو واپسی کا سلسہ شروع ہو جاتا ہے۔پی ٹی آئی کی اندرونی بے چینی اور خانہ جنگی اپوزیشن کو بہت فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ سمجھا جا رہا ہے کہ عارضی خوشی دے کر پی ڈی ایم کو اس کی منزل سے گمراہ کرنا ہی حکومت کی اصل کامیابی ہے۔ لانگ مارچ کا حدف حاصل کرنا اپوزیشن کے لیے ایک بڑا امتحان ہو گا۔ اور دھرنے کا تو آپ ابھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ راتوں رات بازی پلٹ جائے گی اس بات کے امکانات بہت کم ہیں۔ حکومت پانچ سال پورے کرےگی ، نہ اسے نکالا جائے گا اور نہ ہی طاقت ور حلقے اس کو نکالنے کی کسی کوشش کا حصہ بنیں گے۔ اس ملک کی جمہوریت کے لیئے یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا کہ کسی بھی قسم کے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا حصہ نہیں بنا جائے گا۔اس ملک اور اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات مشترک ہیں۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے لیئے ہر آنے والا دن اب نئی مشکلات لے کر آئے گا، حکومت اپنے Grace period سے زیادہ وقت لے چکی ہے، اور بدقسمتی سے یہ وقت کسی بھی قسم کے عوامی مفاد کی منصوبہ بندی کے بجائے احتساب کے کھوکھلے نعروں کی نظر ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کا مقصد یا تو حکومت کو گھر بیجھنا ہے یا پھر اس کے لیئے اتنی مشکلات کھڑی کرنا ہے کہ اس کی صفوں میں انتشار اور ٹھوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائے ۔ لیکن راتوں رات بازی پلٹے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔

بازی پلٹ گئی یا اپوزیشن بھٹک گئی، نواز شریف مطمئن،ہواؤں کا رخ کیسے بدلا؟ اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

Leave a reply