ببول کے کانٹے . تحریر : سید غازی علی زیدی

ماڈرن ازم کے دلدادہ ہوں یا مذہب کے ٹھیکیدار، دانشور ہوں یا فنکار، سیاستدان ہوں یا اساتذہ، سب کو جیسے سانپ سونگھ چکا ہے۔ ہر زبان خاموش، ہر دل کبیدہ خاطر ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا کہ اس سارے معاشرتی بگاڑ میں کہیں نہ کہیں ان کا حصہ بھی ہے۔ ببول کا بیج بویا ہو تو پھول نہیں بلکہ کانٹے ہی اگتے۔ کانٹے بھی وہ جن کا زہر ہماری نئی نسل میں اس بری طرح سرایت کر چکا کہ اب کوئی تریاق بھی کام نہیں دے رہا۔ اخلاقیات کی پامالی کی ہر حد پار ہو چکی ہے۔ سماجی قدروں کا زوال پورے جوبن پر ہے اور کسی میں ان سرکش موجوں کے سامنے بند باندھنے کی جرات بھی نہیں ہورہی۔ ایک خوف و وحشت کی فضا ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا۔ نہ راہ چلتی بزرگ خاتون محفوظ ہے نہ گلی میں کھیلتی معصوم بچی، چھوٹا بچہ ہویا کوئی خاتون خانہ ہر کسی کی عصمت و جان کو خطرہ ہے۔ ہوس زدہ درندے ہر جگہ کھلے گھوم رہے، اذیتیں دے کر قتل کر رہے، کتوں کی طرح بھنبھوڑ رہے۔ جنون اور ہیجان کا یہ عالم کہ الامان الحفیظ۔ جو لوگ کبھی اپنے خاندانی ہونے پر فخر کرتے تھے خود کو معاشرے کا باوقار فرد گردانتے تھے ان کی ہی اولادیں اتنی سفاک کیسے ہو گئی ہیں؟

آخر معاشرے میں تمام۔حدود و قیود کو پار کرتا جنسی ہیجان کیونکر پیدا ہو گیا ہے؟ کیا آج سے دو دہائیوں پہلے تک یہ سب کچھ تھا؟ نہیں بلکل نہیں۔ پھر اب ایسا کیا ہو گیا؟ جواب بہت سادہ اور واضح ہے- فحاشی و بے حیائی۔ مغربی معاشرے کی تقلید میں ہم نے بجائے تعلیم وہنر کو کاپی کرنے کے انکی تہذیب کو جوں کا توں کاپی کرلیا یہ جانے بغیر کہ اس کے مستقل اثرات کس قدر بھیانک ہوں گے۔
قارئین کرام ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ اتنا جنون اتنی سفاکیت راتوں رات نہیں پیدا ہوتی۔ معاشرے میں تبدیلی کا عمل ہمیشہ آہستگی سے آتا ہے۔ قطرہ قطرہ، نامحسوس طریقے سے یہ زہر اترا نہیں اتارا گیا ہے۔ فحاشی وعریانی کا سیلاب ایک دم نہیں آیا بلکہ ہم نے پوری دلی رضامندی سے ماڈرن بننے کے چکر میں اس کو اپنے معاشرے میں رائج کیا ہے۔

مغربی سیکولر و لبرل معاشرے سے متاثر ہمارے دانشوروں نے اپنی شاندار اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی قرار دے کر پس پشت ڈال دیا۔ سیاستدانوں کو مغربی جمہوریت ہی معاشرے کا اصل حسن لگی۔ تو مذہبی رہنماؤں نے معاشرے کی ایلیٹ کلاس میں فٹ ہونے کیلئے مخلوط تعلیم سے لیکر مخلوط محافل تک سب کچھ جائز قرار دے دیا۔ برقع میں بھی ایسی جدیدیت آ گئی کہ پردے کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا۔ مرد و زن کا اختلاط عام ہوگیا خواہ سکول ہو یا آفس۔ بات یہاں تک بھی کنٹرول میں تھی لیکن سونے پر سہاگا الیکٹرانک میڈیا اور ٹک ٹاک جیسی ایپلیکیشنز نے پوری قوم کو ناچ گانے پر لگا دیا۔ جب اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو پاکستانیوں نے موبائل پر پورن فلموں کو دیکھنے کے سب ریکارڈ توڑ دیے۔

خدارا ابھی بھی وقت ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں۔ اربابِ اختیار ہمت کریں ان جنسی درندوں کو سرعام پھانسیاں دیں تاکہ باقی لوگ عبرت پکڑیں اور اپنے گھروں میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں تاکہ معاشرے کا بگاڑ سدھارا جاسکے۔ مغربی معاشرہ تو خود لبرل ازم اور الحادیت کے چکر میں تباہ ہو چکا۔ اگر کسی کو شک ہے تو بیشک ریپ کیسز، چائلڈ پورنو گرافی، عورتوں و بچوں پر تشدد کے اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ” اور بے شرمی کی باتوں کے قریب ہی نہ جاؤ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی ہوں۔”(الانعام۔151)۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم حد سے تجاوز کر جاتی تو پہلے خدا اُسے مہلت دیتا کہ وہ اپنی اصلاح کرے اگر روش نہ بدلی جائے تو خدا کا غضب جوش میں آتا اور تباہی سب کا مقدّر بن جاتی۔

@once_says

Comments are closed.