بدعنوانی سے لت پت ریاست۔ تحریر: غلام نبی بلوچ

0
41

پاکستان میں الیکشن اور دھاندلی کا چولی دامن کا ساتھ ھے یہ رشتہ برسوں پرانا ھے کچھ روز قبل ریاست أزاد جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جس میں پاکستان تحریک انصاف نے واضع برتری حاصل کی اور سادہ اکثریت سے حکومت بنا لے گی۔ اس انتخاب میں تحریک انصاف کی پہلی پوزیشن آئی دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر مسلم لیگ ن ۔
ان انتخابات میں واضع تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی تحریک انصاف کی حکومت تو وفاق میں ہے ہی سب کو معلوم تھا کہ تحریکِ انصاف واضع برتری حاصل کر لے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیک سے زیادہ سیٹیں کیسے حاصل کر لیں حالانکہ ن لیگ کےجلسے زبردست ہوۓ اور ن لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے اسے بھی 2018 کی طرح دھاندلی والے انتخابات کی طرف جوڑ دیا اس کے علاؤہ حال ہی میں سیالکوٹ میں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں تحریک کے ممبران نے دس ہزار کے ووٹ سے پنجاب اسمبلی کی سیٹ جیتی جو ن لیگ گزشتہ تیس برس سے جیتتی آرہی تھی ن لیگ کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ اس میں حکومتی مشینری کا بھی بے دریغ استعمال ہوا اسی وجہ سے تحریک انصاف جیتی البتہ ن لیگ شہباز گروپ کے لوگوں نے اس انتخابات میں دھاندلی کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو مبارکباد دی۔
مبارک باد دینے والوں میں ملک احمد خان اور نوشین افتخارتھے اگر ہم پیچھے ماضی کی طرف چلےجائیں تو ہر الیکشن متنازعہ رہا ہر الیکشن میں دھاندلی کا شور برپا ہوتا رہا 2018 کے عام انتخابات کی بات کی جائےتو تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر اس الیکشن کو دھاندلی زدہ کہا یہاں تک کہ عمران کو سلیکٹڈ بھی کہا گیا دھاندلی کی وجہ سے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں واضع دھاندلی ہوئی اور انہوں نے حکومت گرانے کے لیے ایک اتحاد بھی قائم کی جو اپوزیشن کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ناکام رہا اس طرح 2013 کے انتخابات کی بات کی جائے تو اس انتخاب میں دھاندلی پر بڑی بڑی تحریکیں چلیں عمران خان نے اسلام آباد ڈی چوک پر 126 دن دھرنا دیا اور عمران خان کا مؤقف تھا کہ یہ دھاندلی زدہ انتخابات ہوئےجو ہمیں قبول نہیں۔ اگر ن لیگ یہ کہتی ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہوئےتو ہم انہیں چار حلقے دیتے ہیں یہ اوپن کرائیں پتہ چل جائےگا کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں لیکن حکومت وقت نے ان کی بات کو مسترد کردیا ۔
پاکستانی الیکشن کی بھی ایک مکمل داستان ہے اور قریباً ہر الیکشن متنازعہ رہا اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے یقیناَُ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے صاف شفاف الیکشن کروائیں تاکہ جو ہار جائیں وہ اسے صاف شفاف تسلیم کرے اور دھاندلی کا شور نہ مچائے۔ دھاندلی کے شور شرابے کی وجہ سے اپوزیشن کے لوگ اپنے کارکنان کو احتجاج کرنے کے لیے بلاتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اپنے لیڈران کے ہمراہ آجاتے ہیں اور روڈ بندکرتے دکھائی دیتے ہیں اور ملکی املاک کا نقصان کرتے ہیں جو مملکت خداداد کے حق میں بالکل نہیں ھے اور نہ ہی یہ نظریہ اقبال اور قائد کا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تمام سیاست دان اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر صاف شفاف الیکشن کروانے کے لیے متفق ہوجائیں اور آنے والے انتخابات ٹیکنالوجی کے ذریعے کروائیں تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے کہ الیکشن کون جیتا کون ہارا جب صاف شفاف الیکشن ہو جائیں تو آدھے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے اور مملکت پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گی۔انشااللہ
Twitter id:@GN_bloch

Leave a reply