بد دعائے محبت تحریر؛بسمہ ملک

0
82

کزن یار, یہ الفاظ کبھی مجھے سخت ناپسند تھے۔اور کہنے والا بھی ۔ مگراب یہی الفاظ میرا سرمایہ حیات ہیں۔میری سماعتوں میں آج بھی یہ الفاظ گونجتے رہتے ہیں۔میرا نام نوشین ہے گھر والے سب نوشی کہتے ہیں۔مگروہ مجھے ہمیشہ کزن یاپھر کزن یار، ہی کہتا تھا۔وقت وقت کی بات ہے کبھی وہ مجھے سخت ناپسند تھا اور اس کے یہ الفاظ بھی۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ مجھے اس سے نفرت ہی تھی۔اس کے کزن یار کہنے سے میں چڑجاتی تھی۔اور اسے خوب بےعزت کرتی تھی۔اسے بات بےبات بےعزت کرنا اور اس کی عزت نفس مجروح کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔اوریہی مشغلہ اب میرا عمر بھرکاپچھتاوا۔ بلکہ روگ بن گیا ہے۔وہ جو محبت پہ ہنستا تھاپھر اسے آ لیا محبت نے۔یہ شعر مجھے اسی نے سنایا تھا۔وہ اکثر مجھے شعر سنادیتا تھا۔اسے شاعری سے لگاؤ تھا ۔اور مجھے شاعری سخت ناپسند تھی۔مگراب مجھے بہت سی غزلیں اور شعر یاد ہیں وہ سب شعر بھی یاد ہیں جو اس نے مجھے اکثر بیشتر سناۓ تھے۔وہ میرے ماموں کا بیٹا تھا۔نام تو اس کا عدنان تھا۔مگرسب اسے عادی کہتے تھے۔سواۓ میرے۔میں نے اسے کبھی نام سے بلایا ہی نہیں تھا۔اور نہ کبھی اسے انسان سمجھا تھا۔میں ہمیشہ اسے اوۓ یا اوۓ پینڈو کہہ کر ہی بلاتی تھی۔وہ ہماری گاڑی چلاتا تھا جس کی وجہ سے میں اسے اکثر ڈرائیور بھی کہہ دیتی تھی۔اس سے میرا مقصد فقط اس کو ذلیل کرنا ہوتا تھا۔مگراس نے کبھی مجھ سے شکوه نہیں کیاتھا۔اور نہ ہی کبھی ناراض ہوا تھا۔وہ نویں کلاس میں تھا جب ماموں فوت ہوۓ۔گھر میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے ساری ذمہ داری عادی کے کندھوں پر آپڑی تھی۔اس نے سکول کو خیرآبادکہا اور محنت مزدوری کرنے لگا۔ہمارے سمعیت عادی کے باقی رشتےدار بھی اچھے بھلے کھاتے پیتے تھے۔مگرکسی کو بھی اتنی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ کوئی ان کے سر پہ ہاتھ رکھ دیتا۔سب اپنی اپنی دنیامیں مست تھے۔وقت گزرتارہا عادی نے اپنے بہن بھائیوں کو پڑھایا اور جیسے تیسے گھر کا خرچ بھی چلایا۔پتہ نہیں اس نے کب اور کہاں سے ڈرائیوری سیکھی۔؟؟؟وہ لوگ کبھی کبھی ہمارے گھر ہم سے ملنے آجاتے تھے۔مگرہم لوگ کبھی ان کے گھر نہیں گئے تھے۔امی ایک دوبار گئی تھیں باقی کوئی نہیں جاتا تھا۔اب کی بار عادی اپنی امی کے ساتھ آیا تو ابونے اسے گھر ڈرائیور کی آفر کی جس کو اس نے قبول کرلیا۔ابو نے گھر میں کوئی ڈرائیور نہیں رکھا تھا۔وہ خود ہی مجھے اور میری چھوٹی بہن ثمرین کو کالج یونیورسٹی چھوڑنے جاتے تھے۔عادی کے آنے سے ابو بےفکر ہوگئے تھے۔میں جانتی تھی عادی مجھے پسند کرتا ہے ۔مگرمیں نے کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دی تھی۔یوں کہہ لیں کہ میں اسے توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھتی تھی۔پھر ایک دن اس نے ہمت کرکے اپنی پسند کا اظہار کرہی دیا۔اس نے کہا تھا نوشی میں تمہیں بچپن سے پسند کرتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ میں تمہارے قابل نہیں ہوں

مگر یہ دل کے فیصلے ہیں اس پر کسی کا زور نہیں چلتا

تم کسی قابل نہیں ہو میں نے اسے کہا تھا

ویسے فیصلے دماغ کرتا ہے دل نہیں

بشرطیکہ کسی کے پاس دماغ نام کی کوئی چیز ہو میں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا

محبت کے فیصلے دل کے ہی ہوتے ہیں کزن

عادی نے دھیمے سے لہجے میں کہا

محبت میں اگر فیصلے دماغ کرنے لگے تو محبت، محبت نہیں رہتی مفاد پرستی بن جاتی ہے

بے خطر کود پڑا اتش نمرود میں عشق

عقل محو تماشا لب بام تھی ابھی

اس نے حسب حال اپنی بات کی دلیل میں شعر بھی سنا دیا اس کے اظہار کے بعد تو مجھے جیسے اس سے خدا واسطے کا بیر ہی ہوگیا تھا

میں نے جان بوجھ کر اسے یہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ وہ مجھے محبت کے چکر میں پھنسا کر امیر ہونا چاہتا ہے اس نے کہا تھا کہ شادی اور محبت دو الگ چیزیں ہیں

ضروری نہیں کہ ہم جس سے محبت کریں اس سے ہماری شادی بھی ہو جائے مگر یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جس سے ہماری شادی ہو گئی اس سے ہمیں محبت بھی ہو جائے محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں اور کچھ خاص انسان بھی

میں جانتی تھی کہ عادی کسی لالچ میں مجھ سے محبت نہیں کرتا مگر کسی بھی بات پہ سہی مجھے تو اس کو ذلیل کرنا تھا

اس کے بعد جب جب مجھے موقع ملا میں نے اسے خوب بے عزت کیا میں نے زندگی میں کوئی دکھ نہیں دیکھا تھا شاید اس لیے مجھے کسی کے دکھ کا احساس بھی نہیں تھا بہت ہی بے حس تھی میں۔

دولت کی فراوانی سے مجھ میں تکبر انا اور نخرہ حد سے زیادہ تھا

پھر ایک دن میں نے اپنے دوستوں سے کہہ کر اسے یونی میں بے عزت کروایا

میری دوست اس کی محبت اور غربت پر طنز کرتی رہیں

عادی نے سب ہمت سے سنا اور فقط اتنا کہا تھا کہ کزن۔۔۔۔۔!

کسی کی محبت کا مذاق نہیں اڑاتے اگر اگلا بندہ اپنی محبت میں واقعی سچا اور مخلص ہے تو محبت کی بد دعا لگ جاتی ہے مذاق اڑانے والوں کا ایک دن اپنا مذاق بن سکتا ہے

اور ہم نے اس بات  پہ بھی اس کا خوب مذاق اڑایا تھا

میرا یونی میں آخری سال تھا ابو کو میرے لیے ایک لڑکا پسند آگیا

اعلی تعلیم یافتہ اور امیر ترین گھرانہ تھا ان کی بھی ہماری طرح فیکٹریاں اور دیگر کاروبار تھا

لڑکے والے مجھے دیکھنے آئے اور پسند کر گئے ہمارے گھر والوں کو بھی لڑکا پسند آ گیا منگنی کی تاریخ مقرر کردی گئی منگنی سے ایک دن پہلے ہی عادی بہانہ بنا کر گیا شاید اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ مجھے کسی اور کے نام ہوتا ہے دیکھ سکتا 

وہ تین چار دن بعد واپس آیا تھا

اس کے آتے ہی میں نے اسے اپنے منگیتر سعد کی تصویر دیکھائی اور کہا کے دیکھو ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے محبت کی جاتی ہے اور جو کسی قابل بھی ہوتے ہیں

اسے تڑپانے کا ایک نیا طریقہ میرے ہاتھ آ گیا تھا میں جان بوجھ کر موبائل کان سے لگا کر عادی کے قریب سے گزرتی قدرے اونچی آواز میں نہیں جانو جان وغیرہ کہتے ہاں یار میں جانتی ہوں تم میرے لیے جان بھی دے سکتے ہو۔۔۔

(جاری ہے)

@BismaMalik890

Leave a reply