باعث شرم واقعات اور ہماری تقسیم تحریر-سیدلعل حسین بُخاری

0
56

چودہ اگست کے روز مینار پاکستان میں ہونے والے افسوسناک واقعہ کی ابھی دُھول بھی نہیں بیٹھی تھی کہ چنگ چی رکشے والا شرمناک واقعہ رونما ہوگیا۔بد قسمتی سے یہ واقعہ بھی اسی روز ہوا۔جب
بظاہر انسان نُما ایک شخص نے کُتے کی طرح لپک کر رکشے پر بیٹھی لڑکی کے ساتھ وہ حرکت کی،جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔
اس جانور کی حرکت دیکھنے والے کچھ بزدل وڈیو بناتے رہے،کچھ بے شرموں کی طرح دانت نکالتے رہے اور کچھ بے غیرتی میں حصہ ڈالتے ہوۓ ہنس ہنس کر محظوظ ہوتے رہے۔
ان میں سے کوئ مائ کا لعل ایسا نہیں تھا جو اس لعنتی کو پکڑ کر دو چار لگا سکتا؟
اگر اتنا نہیں کر سکتے تھے تو کم ازکم اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے ہی کر دیتے۔
یہ بےحسی کی انتہا ہے۔
جب ہم ایسے معاملات پر خاموش تماشائ بن جائیں گے تو ایسے زلیل لوگوں کے حوصلے بڑھیں گے۔
ان معا شرتی ناسوروں کے ہاتھوں کسی کی بہن بیٹی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔
ایسے لوگوں کو پٹہ ڈال کر زنجیر سے باندھنا ضروری ہے۔
جہاں ایسے واہیات اور ننگ انسانیت لوگوں کی سرکوبی حکومت کی زمہ داری ہے،
وہیں ہمارے بھی کچھ فرائض ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے ایک مردود ہماری ایک بیٹی کے ساتھ اس قسم کی گھناؤنی حرکت کرے اور ہم خاموش تماشائ بنے رہیں،
کہاں کی مردانگی ہے یہ؟
کہاں ہے ہماری غیرت؟
اس واقعہ میں نظر آنے والی لڑکی ہم سب کی بیٹیوں یا بہنوں جیسی تھی تو پھر لوگ محض تماشا کیوں دیکھتے رہے؟
کیوں سب نے خاموش تماشائ کا کردار ادا کیا؟
بیٹیاں ،مائیں اور بہنیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
آج اس قسم کا واقعہ ایک لڑکی کے ساتھ ہوا ہے،جس سے ہمارا خونی رشتہ نہ سہی،مگر انسانیت کا رشتہ تو ہے !
کل کلاں اس قسم کا واقعہ کسی ایسی بچی کے ساتھ ہو سکتا ہے،جو ہماری اپنی ہو،ہوسکتا ہے ہماری رشتہ دار ہو۔
تو آئیے ملکر ایسے گندے انڈوں کے خلاف منظم مہم کا آغاز کریں۔
ایسی حرکت کرنے والے جہاں نظر آئیں،اُن کے ہاتھ روکیں۔ان کو نشان عبرت بنانے کے لئے اداروں سے نہ صرف تعاون کریں بلکہ اجتماعی طور پر ایسا کرنے کے لئے ان اداروں پر دباؤ بڑھائیں۔
اگرہم ایسا نہیں کریں گے تو معاشرہ تباہی کی طرف مزید کھسکتا رہے گا۔
بربادی ہمارے اور قریب آتی جاۓ گی۔
ایسے واقعات کی روک تھام کی بنیادی زمہ داری تو حکومت کی ہوتی ہے۔
مگر بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ بزدار حکومت ان معاملات پر ستو پی کر سوئ ہوئ ہے۔
حکومت کو جاگنا ہو گا،
کیونکہ ایسے واقعات سے عمران خان اور پی ٹی آئ کے نظریے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اسے حکومت کی ناکامی کے طور پر لیا جا رہا ہے،اور لیا بھی جانا چاہیے۔
ہر چیز،ہر بیماری اور ہر مسئلے کو پچھلی حکومتوں پر ڈال کر جان چھڑا لینے کی روش اب ختم ہونی چاہیے۔
کب تک آپ لوگ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کرتوتوں کے پیچھے چھپتے رہیں گے۔تین سال بہت ہوتے ہیں۔اپنے بلند و بانگ دعوووں کی کوئ جھلک تو دکھائیں عوام کو۔عوام نے مہنگائ برداشت کر لی مگر آپ معاشرے کے ان بگڑے دگڑ دلوں کو تو نتھ ڈالیں،جنہوں نے بہنوں اور بیٹیوں کا گھروں سے نکلنا محال کر رکھا ہے،اور ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیں۔
نئے پاکستان میں پرانے نقائص ختم کئے جائیں ورنہ لوگ پھر پرانے پاکستان ہی میں واپس جانے کو ترجیح دیں گے۔
پولیس ابھی تک عوام کو روایتی طور طریقوں سے ہانکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مگر اب عوام اس قسم کے لولی پاپ سے مطمئن ہوتی نظر نہیں آتی کہ آپ کچھ افسران کو معطل یا ٹرانسفر کر کے لوگوں کی جھوٹ موٹ اشک شوئ کر دیں۔
غفلت برتنے والے اہلکاروں کے لئے یہ کوئ سزا نہیں ہے۔اگر کسی کو اسکی نااہلی اور فرائض سے چشم پوشی کی سزا دینا ہی ہے تو انہیں نوکروں سے برطرف کر کے جیلوں میں ڈالیں۔
مینار پاکستان واقعہ میں کل کچھ افسران کو معطل اور ٹرانسفر کر کے وہی پرانا ڈرامہ دہرایا گیا۔
مگر اس ڈرامے کو پزیرائ نہیں ملی۔
ایسے ہونے والے پے در پے واقعات کا تسلسل سے ہونا،
جہاں صوبائ انتظامیہ کی نااہلی ہے،
وہیں ہماری تقسیم کا بھی نتیجہ ہے۔
اب انہیں واقعات کو لے لیں،
علامہ اقبال گریٹر پارک والے واقعہ میں کچھ لوگ ٹک ٹاک والی متاثرہ لڑکی کے پیچھے پڑ گئے،
کچھ نے اقرار الحسن کو ٹارگٹ کر لیا۔
کچھ ان سینکڑوں افراد کو برا بھلا کہتے رہے،جنہوں نے لڑکی کو زدوکوب کیا،
اور اسے بر ہنہ کر کے اچھالتے رہے۔
جب لوگ اس طرح بٹ جائیں اور راۓ عامہ تقسیم ہو جاۓ تو انتظامی مشینری کو کُشن مل جاتا ہے۔
وہ اسی سپیس کا فائدہ اٹھا کر پتلی گلی سے نکل جاتی ہے کہ لگے رہو تم سب آپس میں،
ہم یہ گئے۔
یہی لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے۔
ہم غلط کو غلط تو کہتے ہیں پر اپنی مرضی کا رنگ دیکر۔
ہم تو یہاں تک سوچتے ہیں کہ کس سائیڈ پہ لکھنے کی وجہ سے ہمیں زیادہ لائیک ملیں گے۔
ضروری نہیں،
جو زیادہ لوگ کہہ رہے ہیں ،
وہی سچ ہو۔
ہمیں خصوصا” سوشل میڈیا پر ان معاشرتی برائیوں پر لائیکس اور ریٹویٹس کے لئے نہیں بلکہ معاشرے سے ان برائیوں کو خاتمے کے لئے لکھنا چاہیے۔
ہو سکتا ہے سچ لکھتے وقت آپ کی تائید میں کم لوگ ہوں۔
اس بات کی پرواہ مت کریں کہ آپ سچ لکھ کر اکیلے ہیں۔
جھوٹ خواہ کتنا بھی زیادہ ہو،مگر جیت ہمیشہ سچ ہی کی ہوتی ہے۔
گزشتہ روز چنگ چی رکشے پر بیٹھی بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،
اُس نے صرف میرا ہی نہیں بلکہ ہر زی شعور شخص کاسر شرم سے جھکا دیا۔
میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اُس نُطف نا مراد کے خلاف کچھ کر سکوں۔
اتنی غلیظ حرکت وہ بھی سر بازار اور چودہ اگست ہی والے دن۔
مگر میری افسوس اور حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی،جب میں نے کچھ لوگوں کو رکشے میں بیٹھی بچیوں کو اس واقعہ کا مورد الزام یہ کہہ کر ٹھہراتے دیکھا کہ جی ان لڑکیوں کا لباس بھی ٹھیک نہیں تھا؟
حد ہوتی ہے،منفی سوچ کی۔
اور اپنا وکھرا لُچ تلنے کی۔
پہلی تو بات یہ ہے کہ مجھے ان بچیوں کا لباس قطعا” نامناسب نہیں لگا۔
اور اگر اس میں کسی قسم کی کمی بیشی رہ بھی گئی ہو تو کیا ہم آوارہ نسل کے پاگل کتوں کو اجازت دے دیں گے کہ وہ لپک کر ان لڑکیوں کا بوسہ لیں؟
یہ کونسا فلسفہ ہے،
جو ہمیں اس قدر محدود سوچ کی طرف لے کر جا رہاہےکہ ہم ایک چھوٹی سی غلطی کو پکڑ کر بلنڈر کرنے والوں کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔
خدا کے لئے بس کردیں اپنی پروفیسریاں،
نکلیں ان خود ساختی فتووں سے۔
اور پیچھا کریں معاشرے میں بڑھتے ہوۓ ان درندوں کا۔
ان وحشیوں کا،جو نہ صرف ہماری ماوں،بہنوں اور بیٹیوں کو بھنبوڑ رہے ہیں بلکہ
اسلام اور پاکستان کا نام بدنام کرنے پر بھی تُلے ہوۓ ہیں۔#

تحریر۔سید لعل حسین بُخاری
@lalbukhari

Leave a reply