باقی یہ رہ گیا تھا کہ وکلا آئیں اور مجھے قتل کر دیں میں اسکے لیے تیار تھا،چیف جسٹس اطہر من اللہ

باقی یہ رہ گیا تھا کہ وکلا آئیں اور مجھے قتل کر دیں میں اسکے لیے تیار تھا،چیف جسٹس اطہر من اللہ

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ میں ملوث وکلا کی گرفتاریوں کے کیس پر سماعت ہوئی،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی،سیکرٹری ہائیکورٹ بار سہیل چودھری عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شکر ہے سیکرٹری صاحب آپ آگئے ہیں ۔رضوان عباسی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے ایسوسی ایٹ کو بلاوجہ مقدمے میں نامزد کیا گیا، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ سب معاملات بہت صاف ہیں کسی کمیشن کی ضرورت نہیں ،آپ کو پتہ ہے وہ تمام وکلا منصوبہ بندی سے حملہ کرنے آئے،کیا آپ اب ان لوگوں کا دفاع کریں گے یہاں پر۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف مجھے نہیں 8 اور ججوں کو یرغمال بنا کر رکھا گیا، باہر میڈیا والوں کو دھمکایاان کی ویڈیوز ڈیلیٹ کی گئیں۔عدالت نے جے آئی ٹی کے بجائے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا مستردکردی ،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ قانون اپنا راستہ خود ہی بنائے گا،انتظامیہ اورپولیس کی بنائی جے آئی ٹی ہی کام کرے گی ،بارکونسلز نے جو بتانا ہے جے آئی ٹی کو ہی بتائیں۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اللہ کی طرف سے یہ ہمیں موقع ملا ہے مثال بنائیں سب قانون کو جوابدہ ہیں،ہنگامہ آرائی میں جو وکلا تھے میں نے کسی کانام پولیس کونہیں دیا،نہ میں دینا چاہتا ہوں یہ کام بار کاہے وہ شناخت کریں کون کون تھے ۔ حملے کے دوران مجھ چیف جسٹس آف پاکستان کا فون آیا تھا،مجھے کہاگیا آپ کو نکال کر ہائیکورٹ میں آپریشن کیا جائے گا،میں نے کہا ہائیکورٹ کو میدان جنگ نہیں بننے دوں گا۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ ہم سب کا امتحان ہے قوم بھی ہماری طرف دیکھ رہی ہے میرا اعتماد بار پر ہے ،سب لوگ وکلا کے یونیفارم میں تھے بار کی بھی عزت اسی میں ہے ان کی نشاندہی کریں ،چھ ہزار کی بار میں 100 لوگوں نے بار کی عزت داﺅ پر لگائی ہے ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ باقی یہ رہ گیا تھا کہ وکلا آئیں اور مجھے قتل کر دیں میں اسکے لیے تیار تھا،یہ میرا آئینی فریضہ ہے کہ واقعہ میں ملوث لوگوں کو مثال بناؤں، جے آئی ٹی ہی کام کرے گی جوڈیشل کمیشن کی ضرورت نہیں ، اس معاملے پرتحریری حکمنامہ بھی جاری کریں گے۔

شیر افضل ایڈوکیٹ نے کہا کہ عدالت عالیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ہم سب کو دکھ ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صرف میرا ایشو نہیں، 8دیگر ججز کو بھی محصور رکھا گیا،چیف جسٹس کو 5 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا مگر میرا کوئی غصہ نہیں ہے، یہ معاملہ قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، آپ وکلا اس ادارے کے محافظ ہیں، آپ ہی واقعہ میں ملوث وکلا کی نشاندہی کریں،جے آئی ٹی نے رپورٹ دی ہے کہ وکلا اور بار ان سے تعاون نہیں کر رہے، یہ ادارے کا معاملہ ہے، کورٹ کا ہمیشہ سے بارز پر اعتماد رہا ہے، صرف چند لوگوں نے بار کا امیج خراب کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ پلاننگ کے ساتھ آئے تھے ،

اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا،اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس کی جے آئی ٹی میں پولیس اور حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں،جے آئی ٹی میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن،ایس ایس پی سی ٹی ڈی شامل ہیں،ایس پی صدر، ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او مارگلہ جے آئی ٹی میں شامل ہیں،جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے، جے آئی ٹی اسلام آباد ہائیکورٹ، ہائیکورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار سے مدد لے گی، جے آئی ٹی تھانہ مارگلہ اور رمنا میں اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس کی تفتیش کریں گے

Comments are closed.