ماضی قریب کی بات ہے کہ لوگ اپنے روز مرہ معاملات سے فارغ ہو کر شام میں مل بیٹھا کرتے اور دن بھر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے دوست احباب سے خوش گپیاں لگاتے، اب کی نسبت بہت اچھا دور تھا لوگ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہ تھے مگر سلجھی ہوئی گفتگو کرتے بہت سے لوگ اپنی ان بیٹھکوں سے بہت کچھ سیکھتے باہم مل بیٹھنے سے جن تجربات اور مشاہدات کو اخذ کرتے انہیں لکھ لیا کرتے یا بہتر خوبیوں کو زندگی میں ڈھال لیا کرتے یوں ان کی یہ بیٹھکیں ان کے لیے مفید ثابت ہوا کرتیں
وقت نے ایک دم سے کروٹ لی اور موبائل انٹرنیٹ کا دور آیا فلموں ڈراموں سے بچوں نے جو سیکھا اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا چائے ڈھابے کی جگہ سینیما گھروں یا پان سگریٹ کے اڈوں نے لے لی دن بھر کی تھکان اتارنے کے مقصد سے کی جانے والی باتوں کی جگہ گالی گلوچ اور فحش گوئی نے لے لی۔ دیکھا جائے تو اس زمانے اور اُس زمانے میں بہت زیادہ گیپ موجود نہیں اگرچے ہم نے اُن ڈھابوں پر لگی با مقصد بیٹھکوں جس نے بہت سے ادیب و شعرا کو جنم دیا میں شمولیت اختیار نہیں کی مگر ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے ایسی مجالس سے استفادہ کیا ہے اور اپنی کامیابی کا لوہا منوایا ہے مگر افسوس اس بات پر ہے کہ نوجوان نسل نے اپنا مقابلہ اپنے سے بہتر لوگوں کے ساتھ کرنے کے لیے روایات کو ترک کر کے مادیت کو پسند کیا اور عام سادے اور کچے گھروں میں رہنے والے نوجوان بھی اسی پان شاپ یا کسی ایسی جگہ پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں جہاں ان کی پہنچ بھی بہ مشکل ہوتی ہے شوق نوابوں والے اور عادتیں خرابوں والی اپنا لیتے ہیں ان میں عام طور پر ایسے نوجوان موجود ہیں جن کے والدین مذہبی گھرانے سے تعلق ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور صاحبزادہ گھر سے باہر امیروں کی بیٹھکوں میں بیٹھ کر شیشہ پینے، گلیوں میں آوارہ گردی کرنے پان تھوکنے اور قہقہے لگانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
اگرچے زمانہ بدل چکا ہے اور اس زمانے کے ساتھ ترقی کرنا بھی ضروری ہے مگر ایسا نہیں کہ آپ اچھی اور بُری مجلس کی سوجھ بوجھ ہی نہیں رکھتے ہر دور میں اچھائی اور برائی کے پہلو موجود رہے ہیں آج اگر پان شاپس، سنوکر، ویڈیو گیمز یا دیگر اڈے موجود ہیں تو وہیں بہت سی ایسی جگہیں بھی موجود ہیں جو نوجوانوں کے مستقبل کے لیے بہترین تربیت گاہ بن سکتی ہیں اگر ہم کتاب لائبریری یا ای لائبریری کی بات نہ بھی کریں تو وقت گزاری کے لیے آج بھی ہر شہر میں چائے ڈھابے موجود ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے اس کا رجہان بڑھتا جا رہا ہے یہ بات ایک طرف تو خوش آئند بھی ہے مگر کسی حد تک مایوس کن بھی کہ اگر چند لوگ بیٹھ کر اچھی گفتگو کر بھی رہے ہوں تو وہ جلدی وہاں سے محض اس لیے اٹھ کر چلے جاتے ہیں کہ قریبی میز پر اونچی آواز سے یا تو کوئی میوزک چلا لے گا یا گالی گلوچ اور فحش گوئی شروع ہو جائے گی وغیرہ
اگر اب ایسی بیٹھکوں کا رواج عام ہو ہی رہا ہے تو ہمیں چاہیے کہ دیگر لغویات اور فضولیات کی بیٹھکوں کے عوض ان کو اپنا لیا جائے اور اکٹھے بیٹھ کر فضول مباحثے اور سیاست کی بجائے ملکی مفاد میں مثبت گفتگو کی جائے کاروبار کی بہتری کے لیے مشاورتیں کی جائیں ادب و آداب والی مجالس کو دوبارہ بحال کیا جائے تو کم از کم یہ جو چند سال کا خلا آیا ہے شاید یہ پُر ہو سکے