مزید دیکھیں

مقبول

کینیڈا کے انتخابات میں 2 پاکستانی نژاد خواتین رکن پارلیمان منتخب

اوٹاوا : کینیڈا کے انتخابات میں 2 پاکستانی نژاد...

پاکستانی زراعت تباہ کرنے کے بھارتی منصوبے کبھی پورے نہیں ہوں گے،خالد مسعود سندھو

مرکزی مسلم لیگ کا متعدد شہروں میں احتجاج،لاہور میں...

بھارت یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا ،اسحاق ڈار

اسلام آباد: نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار،...

نومئی،جی ایچ کیو حملہ کیس، سماعت بغیر کاروائی ملتوی

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں...

غیر ملکی ایئر لائن کی غفلت،میت کی بجائے خالی تابوت لے آئی

دوران علاج بھارت میں انتقال کر جانے والے آریان...

بھارت میں ہندوانتہاپسندی عروج پر، بینک نے باحجاب خاتون کوکیش دینے سے انکارکردیا

نئی دہلی: بھارت میں ہندوانتہاپسندی عروج پر ریاست بہارمیں ایک بینک نے باحجاب خاتون کوکیش دینے سے انکارکردیا۔

باغی ٹی وی : بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست بہارکے ایک بینک میں کیشئیرنے حجاب پہننے والی خاتون کوکیش دینے سے انکارکردیا۔ کیشئیرنے خاتون سے کیش حاصل کرنے کے حجاب اتارنے کا مطالبہ کیا باحجاب خاتون نے حجاب اتارنے سے انکارکردیا خاتون اوران کے والد کے شدید احتجاج پربینک کوانہیں رقم دینے پرمجبورہونا پڑا۔

باحجاب خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں حجاب کرنے کی وجہ سے اپنے ہی اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے سے روک دیا گیا۔

دوسری جانب گیسٹ فیکلٹی کے طور پر کام کرنے والی ایک انگلش لیکچرر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے کیونکہ کرناٹک کے تماکورو ضلع میں پڑھاتے ہوئے انہیں حجاب سے پرہیز کرنے کو کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ یہ میری عزت نفس کا معاملہ ہے میں حجاب کے بغیر پڑھا نہیں سکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ تین سالوں سے میں جین پی یو کالج میں بطور گیسٹ لیکچرر کام کر رہی ہوں۔ ان تین سالوں میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور میں نے آرام سے کام کیا۔ لیکن، کل میرے پرنسپل نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ کلاسز کا انعقاد حجاب یا کسی مذہبی علامت کے بغیر ہونا چاہیے۔-

انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سالوں سے، میں حجاب پہن کر لیکچر دے رہی ہوں، اس سے میری عزت نفس مجروح ہوئی ہے اور میں اس کالج میں مزید کام نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے، میں نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دیا مذہب کا حق ایک آئینی حق ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے غیر جمہوری عمل کی مذمت کرتی ہوں۔

کالج انتظامیہ نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دریں اثنا، اس کے استعفیٰ کے خط پر آنے والے بہت سے الفاظ نے لیکچرر کی زبان کی مہارت پر سوالات اٹھائے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق انچ سو سے زائد قانون کے طالب علموں، قانونی ماہرین اور وکلاء نے حجاب کے معاملے پر ایک کھلا خط لکھا خط میں مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے پر تعلیمی اداروں میں داخلے سے روکنے کی شدید مذمت کی گئی ہے خط میں ایسی کاروائی کو آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق ہائی کورٹ ججز،سابق چیئرمین کرناٹک اسٹیٹ بیک ورڈ کلاس کمیشن، سینئر ایڈوکیٹس، پروفیسر اور مصنفین ،سپریم کورٹ ایڈوکیٹس، جندل گلوبل لاء اسکول کی پروفیسر، ایکٹوسٹ اور لاء گریجویٹ،پارٹنر، ڈائیلاگ پارٹنرز لیبر ایڈووکیٹس اور ماہر قانون شامل ہیں-

خط میں کہا گیا ہے کہ ہم کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری حکم سے یکساں طور پر فکر مند ہیں، جس میں طلبہ کو چاہے ان کا مذہب کوئی بھی ہو، اسکارف، حجاب،پہننے سے روکا گیا ہے کورٹ کے عبوری حکم کے بعد، ہم مسلم طلباء اور عملے کی سرعام تذلیل کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جنہیں مبینہ طور پر ضلع انتظامیہ کی ہدایات پر اسکولوں اور کالجوں میں داخلے سے قبل اپنے حجاب کو اتارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

مسلم لڑکیوں اور خواتین کی یہ بے عزتی غیر انسانی، عوامی نظر میں آئین کی توہین اور پوری کمیونٹی کی عوامی تذلیل کے مترادف ہے۔ عزت کے ساتھ زندگی کے ان کے بنیادی حق کا تحفظ کرنے میں ناکامی پر ہم شرم سے سر جھکا لیتے ہیں قانونی برادری کے ارکان کے طور پر، ہم جانتے ہیں کہ داؤ پر لگے حقوق کی تفہیم کے لیے کسی مسئلے کا تعین انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ،اس طرح کے فیصلے کا اثر مسلم خواتین کو تعلیم سے دور کرنا اور ہمارے ملک میں تعلیمی بحران کو بڑھانا ہے۔ صرف حجاب پہننے کی بنیاد پر خواتین کو تعلیم سے روکنا مناسب نہیں ہے۔ مسلم خواتین کی خودمختاری، پرائیویسی اور وقار کے خلاف مطلق یکسانیت مسلط کرنا غیر آئینی ہے۔ اس بنیاد پر خواتین کو حجاب پہننے کا حق حاصل ہے اور اسی طرح حجاب نہ پہننے کا حق بھی ہےتاہم، مسلم خواتین کے حقوق پر موجودہ حملہ کوئی نیا یا الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے، بلکہ اسے اس کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔اس سے کرناٹک اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہورہا ہے۔