پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن کے مطابق
عمران خان درست اقدامات کر رہا ہے۔
اسکے ان اقدامات سے معیشت میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔
مگر ان اقدامات کے ثمرات آئندہ آنے والی حکومت کو ملیں گے۔
اعتزاز احسن کا یہ آخری فقرہ عمران خان کے بطور سیاستدان ویژن کا نچوڑ ہے۔
عمران خان خود بھی یہی کہتا ہے کہ آئندہ نسل کے لئے بہتر پاکستان چھوڑ کے جائیں گے۔
بڑا لیڈر وہی ہوتا ہے،جو الیکشنوں کا نہیں،آنے والی نسلوں کا سوچتا ہے۔
خوش قسمتی سے یہ سوچ عمران خان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
جس کا اعتراف مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا نام
بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن بھی کر رہا ہے۔
جس نے بلاول اور اپنی پارٹی کا خوف بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ وہ بات کر دی،
جو اسے سچ محسوس ہوئ-
یہی خوبی عمران خان کو عصر حاضر کے دیگر سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔اسکا شفاف کردار لوگوں کے لئے ایک امید بن چکا ہے۔
وہ جو کام پاکستان کے لئے ضروری ہیں۔وہ انہیں کر رہا ہے۔
جو کام انتخابات میں کامیابی کی دلیل اور ضمانت ہوتے ہیں اور ان میں کمیشن بھی کارفرما ہوتا ہے۔
وہ کام وہ نہیں کر رہا۔کیونکہ کمیشن سے تو اسکا دور دور کا واسطہ نہیں۔اس نے زندگی میں کبھی پیسے سے پیار نہیں کیا،
اگر اسے پیسے کی ہوس ہوتی تو وہ اپنی پہلی بیوی اور ایک معزز خاتون جمائمہ کو طلاق نہ دیتا۔یہ طلاق دینے کا مطلب ہی اربوں روپے سے دستبرداری تھا۔
طلاق کے وقت لندن کی عدالت کے جج نے اس سے پوچھا کہ طلاق کے عوض آپ کتنا معاوضہ لیں گے؟
عمران خان نے کہا کہ میں بڑے بھاری دل اور کچھ مجبوریوں کی وجہ سےایک عمدہ خاتون اور اپنے بچوں کی ماں کو طلاق دے رہا ہوں،مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں۔
یہ سن کر جج ،جمائمہ سمیت سبھی حاضرین اشک بار نظر آۓ۔اُسے الیکشن کی بھی پرواہ نہیں۔اسے پتہ ہے کہ اسکی نیت صاف ہے۔وہ اس ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔
اس ملک کی سمت درست کرنا چاہتا ہے،جسے سابق حکمران تباہ کر کے گئے ہیں۔اسے اگر صرف الیکشن سے غرض ہوتی تو وہ بھی اسحق ڈار اور مفتاح اسماعیل جیسے وزراۓ خزانہ سے کچھ مصنوعی اور ڈنگ ٹپاو اقدامات کر واکے مہنگائ کو بھی نیچے رکھتا۔ڈالر بھی قابو رہتا اور وہ اگلا الیکشن بھی آرام سے جیت جاتا۔
مگر اسکی قیمت ہماری آئندہ نسلوں کو چکانا پڑتی۔
جیسا کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومتوں کے گناہوں کا کفارہ ابھی تک ادا کر رہی ہے۔
بقول اعتزاز احسن کے
عمران خان کے اچھے اقدامات کے نتائج آئندہ دو سال میں نہیں آئیں گے۔
ان اقدامات سے اگلی حکومت کو فائدہ ہو گا۔
ویسے قرائن بتاتے ہیں کہ اگلی حکومت بھی ان شاءاللہ PTIکی نظر آرہی ہے۔
آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں فتوحات سے PTI بڑا تگڑا کم بیک کر چکی ہے۔
سیالکوٹ سے ن لیگ کا کئی عشروں کا تسلط ٹوٹا ہے۔
یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ تھا۔
اس حلقے سے کامیابی نے ن لیگ کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
پی ڈی ایم کی شکست وریخت اور ن لیگ کے اندرونی اختلافات کو دیکھتے ہوۓ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئ کا مقابلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے نہیں بلکہ مہنگائ سے ہو گا۔
اگلے انتخابات سے پہلے حکومت اگر مہنگائ کی کمر توڑنے میں کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن کی کمر خود بخود ٹوٹ جاۓ گی۔
اگر مہنگائ پر قابو نہ پایا جا سکا تو پھر حکومت اپنی کمر ٹوٹنے کے لئے تیار رہے۔
عوام اب مہنگائ کے معاملے میں کوئ دلیل سننے کو تیار نہیں۔
کرونا کی وجہ سے مہنگائ کی بین الاقوامی لہر،
معیشت میں بہتری،
عوام کو مطمئن کرنے کے لئے کوئ بڑی سے بڑی دلیل کافی ثابت نہیں ہو رہی۔
مجھ جیسے صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ جب بھی حکومت کے حق میں یا بہتر معاشی اعشاریوں کے بارے میں لکھتے ہیں تو لوگوں کا ایک ہی کمنٹ ہوتا ہے کہ جو آپ نے لکھا !
وہ ٹھیک ہے،
مگر اُسے سے پیٹ نہیں بھرتا۔
اُس سے بلوں کی ادائیگی نہیں ہوتی-
لہذا حکومت کو جلد عوام کےان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہو گا !
موجودہ مہنگائ نے لوگوں کی قوت خرید اور قوت برداشت دونوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔
اس مہنگائ کا توڑ کرنے کے لئے حکومت کو ایک مکمل منصوبہ بندی سے آگے بڑھنا ہو گا۔
لوگوں کی مشکلات کا مداوا کرنے کے لئے دن رات ایک کرنا ہو گا۔
لوگوں کی اکثریت عمران خان کے دیانتدار اور پُر عزم ہونے پر پوری طرح متفق ہے،
مگر پیٹ تو اس سے بھی نہیں بھرتا#

تحریر سید لعل حسین بُخاری
@lalbukhari

Shares: